بلوچستان حکومت اعتماد کھوچکی ہے، مستعفیٰ ہوجائیں یا اعتماد کا ووٹ لیں – اپوزیشن

442

بلوچستان کے اپوزیشن جماعتوں کے اراکین صوبائی اسمبلی نے کہا ہے کہ جب صوبائی حکمران عوامی اعتماد کھونے کے بعد ایک دوسرے پر بھی اعتماد کھوچکے ہیں ایسے میں عالمی وباء کورونا اور بڑے معاشی مسائل کا مقابلہ کرنا موجودہ حکمرانوں کے بس کی بات نہیں اس لئے وہ مستعفیٰ ہوجائیں یا پھر اعتماد کا ووٹ لیں – ان خیالات کا اظہار بدھ کے روز بلوچستان اسمبلی کے اپوزیشن چیمبر میں قائد حزب اختلاف ملک سکندر ایڈووکیٹ، نواب محمد اسلم رئیسانی، ثناء بلوچ و دیگر نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

اپوزیشن لیڈر ملک سکندر ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ اس وقت وفاقی اور صوبائی حکومتیں عوام کیلئے عذاب اور وبال جان کی حیثیت اختیار کرچکی ہیں، یہ ملکی اور صوبائی سطح پر مسلط شدہ حکومتیں ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں وزیراعلیٰ اور وزراء کا کوئی جوڑ نظر نہیں آرہا تمام ایک دوسرے سے الگ تلگ ہیں یہ سب کچھ پالیسی اور مسائل کیلئے نہیں بلکہ ذاتیات کیلئے ہیں، موجودہ صوبائی حکومت ایجنڈے کے تحت نہیں بلکہ ذاتی مراعات کے حصول کیلئے بنی ہے۔

انہوں نے کہا کہ کورونا ایک عالمی وباء ہے اس وباء کے خلاف اپوزیشن صف اول میں آنا چاہتی ہے بلکہ ہم نے ڈاکٹروں کیلئے ذاتی حفاظتی کٹس کی فراہمی، عوام کو راشن دینے سمیت دیگر مطالبات کیئے، اس سلسلے میں وزیراعلیٰ نے ہم سے ملاقات کی اور یقین دہانی کرائی کہ دو کمیٹیاں بنائی جائیگی اور اپوزیشن اراکین کو بھی ساتھ لیکر معاملات آگے بڑھائے جائیں گے لیکن آج تک ایسا کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہا۔

انہوں نے کہا کہ ڈاکٹروں کے پاس ذاتی حفاظت کے آلات ہیں نہ ہی ٹیسٹ کیلئے درکار کٹس موجود ہیں عوام کے پاس کوئی ذریعہ معاش نہیں رہا اور نہ ہی اس سلسلے میں کوئی وضع کار بنایا گیا ہے اور نہ ہی لوگوں کے تحفظ کے حوالے سے کسی قسم کے اقدامات ہوتے دکھائی دے رہے ہیں

ان کا کہنا تھا کہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کو کورونا سے بچانے کے ساتھ ساتھ ان کی معاش کا بھی تحفظ کریں، ٹڈی دل بھی بلوچستان کا رخ کرچکا ہے لیکن اس کی روک تھام کیلئے پی ڈی ایم اے اور نہ ہی حکومت کی جانب سے کسی قسم کے اقدامات کیئے گئے ہیں۔

نواب محمد اسلم رئیسانی نے کہا کہ اسپیشل اسسٹنٹس کی تقرری کو ہائی کورٹ کی جانب سے کالعدم قراردیئے جانے کے بعد تبدیلی آگئی ہے۔ ایگریکلچر ریسرچ کونسل کو ہدایات جاری کی جائیں کہ وہ بلوچستان آئیں اور یہاں اپنا کیمپ اسٹیبلش کریں تاکہ ٹڈی دل کا خاتمہ اور خوراک کمی کے مسائل کو حل کیا جاسکے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارامطالبہ ہے کہ پکڑ دھکڑ کرنے والے ادارے میر شکیل الرحمن کو رہا اور میڈیا پر جو قدغن لگا ہے اس کا سلسلہ بند کیا جائے اس کے علاوہ تمام لاپتہ افراد کو جن کا تعلق مختلف قوموں اور زبانوں سے ہیں کو منظر عام پر لایا جائے۔

بلوچستان نیشنل پارٹی کے رکن صوبائی اسمبلی ثناء بلوچ کا کہنا تھا کہ کورونا سے زیادہ ٹڈی دل سے بلوچستان میں معاشی نقصانات کا امکان ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایک طرف بجلی کی طویل اور غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کے باعث زراعت کے مستقبل پر سوالیہ نشان ثبت ہوچکے ہیں تو دوسری جانب ٹڈی دل نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی ہے، بلوچستان میں فصلات تیار ہونے کو ہے جن کے ٹڈی دل کے باعث برباد ہونے کا اندیشہ ہے جس سے صوبے کو 32 ارب روپے کے نقصان کا خدشہ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حکمران پہلے عوام کا اعتماد کھوچکے تھے اب یہ اپنے اندر ایک دوسرے پر بھی اعتماد کھو رہے ہیں حکمران جماعت کے اراکین کے اجلاس، دستخط اور تصاویر سب کے سامنے ہیں اس طرح کے حکمران کورونا جیسے عالمی وباء اور موجودہ حالات میں درپیش بڑے معاشی چیلنجز کا مقابلہ کسی صورت بھی نہیں کرسکتی، ہم کہتے ہیں کہ حکمران مستعفیٰ ہوجائے یا پھر آکر خوداعتماد کا ووٹ لیں۔ اس وقت بلوچستان تکلیف دہ صورتحال سے دوچا رہیں۔