بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی ترجمان نے کوئٹہ میں ڈاکٹرز کی گرفتاری اور پولیس کی لاٹھی چارج کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کا نوآبادیاتی رویہ اوربلوچ قوم دشمنی کے تاریخ کے تناظر میں ہم نے پہلے ہی دن واضح کیا تھا کہ ریاست وبائی مرض کورونا وائرس کو بھی بلوچ قوم کے خلاف استعمال کرے گی۔ ڈاکٹروں کے جائز مطالبات پر انہیں گرفتار کرنا ہمارے موقف کی تائید ہے۔ ہم نے اس پر سوشل میڈیا میں کمپیئن بھی چلائی جس پر یہ تنقید ہوئی کہ قدرتی آفت پر ایسی طرزعمل مناسب نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ سیاسی پروپگنڈہ نہیں ہماری قومی بقا کا مسئلہ ہے۔ پاکستان ایسا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے رہا جس سے بلوچ قوم نقصان سے دوچارہو، اور بلوچوں کے مشکلات میں اضافہ ہو۔ زلزلہ اور سیلاب کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ کورونا وائرس کو روکنے میں جن ممالک نے کوتاہی برتی یا صحت کی سہولیات پہنچانے میں تاخیر کی یا سرکاری انتظامات سے لوگوں کو بے جا مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تو ان ریاستوں کے سربراہاں نے اپنے اپنے عوام سے معافیاں مانگیں لیکن پاکستان نے نہ صرف اس وبا کو ایک منصوبے کے ساتھ بلوچستان میں پھیلانے کی دانستہ کوشش کی بلکہ شعبہ طب سے وابستہ لوگوں کے ساتھ درندہ صفت رویہ رکھ کر درندگی کی تمام حدیں پار کر دیں۔ زندہ قومیں اس وائرس کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بننے اور ہراول دستے کا کردار ادا کرنے والے شعبہ طب کے لوگوں کو ریاستی سلامی پیش کررہی ہیں لیکن پاکستان بلوچستان میں ڈاکٹر وں کے خلاف تشدد پر اتر آیا ہے۔
ترجمان نے کہا کہ عام حالات میں بلوچستان شعبہ ہائے زندگی میں قرون وسطیٰ کا منظر پیش کرتاہے اور وباکے دنوں میں خیمہ بستیوں پر مشتمل قرنطینہ مراکز کے مناظر، ادویات اور ٹیسٹ کٹس اور Personal Protective Equipment (PPE) کی عدم دستیابی نے ریاست اور ریاستی مراعات کے لئے سجدہ ریز پارلیمانی پارٹیوں کی ترقی کے دعوؤں کی قلعی کھول دی ہے۔ گوکہ بلوچ قوم جبری گمشدگی، حراستی قتل، فضائی اور زمینی بمباری اور روزانہ کی بنیاد پر جاری فوجی آپریشنوں کی وجہ سے کورونا وائرس جیسی وبا سے پہلے ہی دوچار ہے لیکن اس وبا کی وجہ سے بلوچ قوم کے مصائب میں ہزار گنا اضافہ ہوچکا ہے۔
انہوں نے کہا بلوچستان میں ڈاکٹر کوئی بڑی مراعات وسہولیات نہیں بلکہ Personal Protective Equipment(PPE) کی فراہمی کا مطالبہ کررہے ہیں۔ یہ ان کا جائز مطالبہ اور حق ہے۔ اس پر انہیں سرعام تشدد کا نشانہ بنایا جاتا اور گرفتار کیا جاتا ہے۔ پوری دنیا میں پاکستان واحد ریاست ہے جو حفاظتی آلات کے مطالبے پر ڈاکٹروں کو گرفتارکر رہی ہے۔ سماجی فاصلہ یا سوشل ڈسٹینس کا راگ الاپنے والی ریاست درجنوں ڈاکٹروں کو ایک چھوٹی سی لاک اپ میں قید کررہی ہے جبکہ پنجاب (جو پاکستان کا حاکم ہے) سے کروناوائرس کی خوف کی وجہ سے کئی دوسرے قیدیوں کو رہا کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ بات ہر ذی شعور شخص جانتاہے کہ Personal Protective Equipment(PPE) یا میڈیکل اور پیرا میڈیکل اسٹاف کی حفاظتی سامان اس وبا سے نمٹنے کیلئے پہلی اور ضروری ہتھیار ہیں۔ یہ احتجاج بھی تیرہ 13 ڈاکٹروں کے کورونا وائرس سے متاثر ہونے کے بعد اپنی حفاظت کیلئے کیا گیا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ڈاکٹروں کو بنیادی ضروریات سے محروم رکھنا ایک سازش ہی ہے تاکہ وہ ہڑتال پر جاکر متاثرین کو بے یار و مدد گار چھوڑیں۔ اس طرح ریاست اپنے آپ کو بری الذمہ قرار دیکر ہماری نسل کشی کی واردات میں اس نئے حربے کا اضافہ کرنا چاہتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر اور میڈیکل شعبہ سے تعلق رکھنے والے اس وبا میں سپہ سالار کا کردار ادا کرتے ہیں۔ یوں خود ان کی حفاظت اولیت رکھتی ہے۔ کٹھ پتلی حکومت کی جانب سے نام نہاد دعوے اپنے آقاؤں کو خوش کرنے اور سادہ لوح عوام کو دھوکہ دہی کے سوا کچھ نہیں ہیں۔ یہ بلوچستان کی محرومیوں اور محکوم ہونے کی دلیل ہیں۔ اس وبا کے دنوں میں بلوچ سرزمین کے وارثوں کے ساتھ یہ سلوک قابض کی سات دہائیوں سے جاری پالیسیوں کا تسلسل ہے۔ پاکستان کے اقدامات اس حقیقت کو مزید واضح کررہے ہیں کہ پاکستان بلوچ نسل کا صفایا کرنے کے لئے تما م ذرائع کے استعمال میں تیزی لارہا ہے اور کورونا وائرس بلوچ قوم کے خلاف پاکستان کا ایک حیاتیاتی ہتھیار بن چکا ہے۔ یہ ریاست اسے تمام انسانی اقدار کو بالائے طاق رکھ کر بربریت کے ساتھ روبہ عمل لا رہا ہے۔