بلوچ ہیومین رائٹس آرگنائزیشن نے بلوچستان میں ہونے والی فوجی کاروائیوں اور تشدد کے دیگر واقعات کے نتیجے میں ہونے والے ماوراے عدالت ہلاکتوں، گرفتاریوں ، آپریشنوں اور ان کے نقصانات کی ماہانہ اعداد و شمار میڈیا کو جاری کرتے ہوئے کہا کہ سابقہ مہینوں کی طرح اکتوبر کا مہینہ بھی انسانی حقوق کے حوالے سے سنگین رہا۔
اس مہینے میں فورسز کے ہاتھوں مختلف علاقوں سے 149افراد گھروں اور دیگر جگہوں سے اٹھائے گئے جبکہ 46افراد رہا کردئیے گئے، جن میں سے بیشتر تعداد اسی مہینے اغواء ہونے والوں کی، جبکہ باقی افراد کے حوالے سے کوئی معلومات میسر نہیں ہیں، جن میں سے بیشتر اب بھی لاپتہ ہیں۔ اس کے علاوہ اس مہینے کی فوجی کاروائیوں، نامعلوم وجوہات اور بم دھماکوں کے نتیجے میں اور زیر حراست قتل کے18واقعات سامنے آئے، ان میں سے آٹھ افراد فورسز کی کاروائیوں کے دوران قتل ہوئے جبکہ ایک زیرحراست شخص کی لاش برآمد ہوئی، نامعلوم وجوہات اور ذاتی دشمنیوں کے نتیجے میں 7 افراد قتل ہو گئے۔
بلوچ ہیومین رائٹس آرگنائزیشن کے ترجمان نے کہا کہ بلوچستان میں میڈیا پہلے سے حکومتی مشینری کے دباؤ کا شکار ہے، پارلیمانی سیاسی جماعتیں ان نقصانات پر مکمل خاموش ہیں اور غیر پارلیمانی سیاسی جماعتیں پابندیوں کا شکار ہیں۔ پورے بلوچستان میں بی ایچ آر او سمیت چند ایک ایسی تنطیمیں ہیں جو صورت حال کی تفصیلات رائے عامہ تک پہنچانے کی اپنی کوششیں کررہی ہیں، لیکن یہ ادارے بھی حکومت کی پابندیوں کا غیر اعلانیہ شکار ہیں۔
ترجمان نے کہا کہ بی ایچ آراو گزشتہ چند سالوں سے بلوچستان کے واقعات کی تفصیلات لوگون تک پہنچا رہی ہے، اس دوران ہمارے راستے میں مختلف رکاوٹیں کھڑی کی گئیں لیکن بی ایچ آر او اپنے فرائض سے دستبردار نہیں ہوئی ہے، بی ایچ آر او ایک غیر سیاسی تنظیم ہے اسے سیاسی سرگرمیوں سے کسی قسم کا تعلق نہیں اور نہ ہی بی ایچ آر او کا جھکاؤ کسی ایک فریق کی طرف ہے، اس کے باوجود ہمارے لیڈر و کارکنان اغواء ہورہے ہیں،
اکتوبر کی 28تاریخ کو کراچی سے بی ایچ آر او کے سیکرٹری اطلاعات نواز عطا بلوچ کو دیگر آٹھ نوجوانوں سمیت جبری طور پر لاپتہ کیا گیا، اس گمشدگی کو ایک ہفتے سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود تا حال ان میں سے کسی کا کوئی اتا پتہ نہیں ہے، عینی شاہدین نے رینجرز اور سادہ کپڑوں میں ملبوس لوگوں کو ان نوجوانوں کو گرفتار کرتے دیکھا لیکن مذکورہ ادارے اور سندھ حکومت اس حوالے سے مکمل خاموش ہیں۔ 28تاریخ کو اغواء ہونے والوں میں آٹھ سالہ آفتاب، 13سالہ الفت سمیت دیگر کم عمر نوجوان شامل ہیں۔
ترجمان نے کہا کہ اکتوبر کی 30تاریخ کو کوئٹہ سے ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کی بیوی کو دیگر تین خواتین و بچوں سمیت اغواء کیا گیا، ان کی گرفتاری بعد میں ظاہر کرکے انہیں عوامی دباؤ کی وجہ سے رہا کردیا گیا لیکن یہ صورت حال آئندہ وقتوں میں مزید شدت اختیار کرسکتا ہے۔
بلوچستان سے ماورائے عدالت گمشدگیوں، مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی اور آپریشنوں کو روکنے کے لئے ضروری ہے کہ ملکی و عالمی ادارے طاقت ور سیکیورٹی کے اداروں پر دباؤ ڈالیں، اگر زمہ دار اداروں نے اس حوالے سے کوئی اقدام نہیں اٹھایا تو اس امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ آئندہ وقتوں سیاسی کارکنوں کے رشتہ دار خواتین و بچے ان غیر انسانی و غیر اخلاقی پالیسیوں کا شکار ہوں گے۔