آؤ منظور سے ملیں – علی جان

556

آؤ منظور سے ملیں

تحریر: علی جان

دی بلوچستان پوسٹ

ایک سنگت تھا، درحقیقت سنگت سےبڑھ کرتھا، جو وقت اس کے ساتھ گذارے وہ انقلابی تعلیمات سےکم نہ تھے، اس کے ساتھ کام کرنا میرے لئےایک اعزازتھا اورہے، وہ انسانیت کا زندہ مثال تھا اوراس کی صبروتحمل اپنی مثال آپ رہے گی، جنون کی حدتک کام کرنا، جس کا انداز زندگی بہت بلند تھا،اُن کی برداشت کا انتہا نہ تھا، اسے بلوچ سے جنونیت کی حدتک محبت تھی، اگر یہ کہناصحیح ہے کہ انسان خداداد صلاحیتوں کے مالک ہوتے ہیں تو وہ ان خاص انسانوں میں سےایک تھا، بہت سی خوبیوں کامرکب تھا، جو ایک انقلابی کی پہچان ہیں۔ سیاست میں منظورکابلند مقام رہا، وہ ایک الگ بحث رہے گا کہ وقت اور حالات نے اسے اتنےمواقع نہ دیئے، جس کسی کو منظور سےواسطہ پڑا لازماً اسکی شخصیت سے متاثر ہوا ہوگا، پہلی بار جب وہ میرےعلاقے میں آیا تو اس نے لوگوں کے ساتھ نہ ٹوٹنے والے تعلقات بنائے، جب وہاں سے چلا گیا تو مجھ سے پوچھتے رہےکہ منظور آج کل کہاں ہے؟ اس کی سب بڑی خاصیت یہ تھی وہ لوگوں کے ساتھ بے تکلفی سے پیش آتے، ہر کسی سے اسی کی انداز زندگی کے مطابق محو گفتگو ہوتے اگر کوئی کسان تھا، تو اس سے اسی کی حالات کے بارے پوچھتے اور باتیں کرتے اگر تعلیم یافتہ تھا تو اسی کے مطابق پوچھتے اور باتیں کرتے اگر میں کہوں کہ وہ باتوں کے فن میں ماہر تھے یقیناً صحیح ہوگا، یہی انداز زندگی منظورکی شخصیت کا خاصہ رہا ہے، منظورکی اسی انداز زندگی نے مجھے اپنا گرویدہ بنا لیا۔

اگر میرا حافظہ جواب نہ دے، یقیناً میں اپنے قریبی ساتھی سے 2013 میں اس وقت ملا جب بی آرپی الیکشن کے خلاف تربت میں ایک ریلی نکال رہی تھی۔ جو عطاء شادڈگری کالج سے شروع ہوکر پھر کالج تک آخر میں ختم ہونا تھا۔ کالج میں جب ہم سب ریلی کی لائن میں سیدھےکھڑے تھے، جو عموماً ہوتا ہے۔ مجھے میرے ایک دوست نےاشارہ کرکے کہا وہ منظور ہے بی این ایم کا ذمہ دار ہےجو سب میں نمایاں تھا اسلئے نہیں کہ رنگت میں دوسروں سے مختلف تھا بلکہ لائن سے ہٹ کر بوری سے بھرا ہوا بی این ایم کے بروشرز ،پمپلیٹس اور میگزینز اپنے پیٹھ پر لاد کر ہر ایک کو دے رہا تھا، یہی سے میرا خواہش بنا کہ مجھے اس سے ملنا ہے، ساتھ ہی خواہش کا اظہار اپنے ساتھ کھڑے دوست سے بھی کی، پھراسی دوست نے ریلی کے بعد منظور کو ساتھ لیکر ہاسٹل میں آیا، اس وقت ہم ڈگری کالج کے ہاسٹل میں رہائش پزیر تھے، اس دوست نے مجھے اپنےروم میں بلایا جو اولڈ ہاسٹل میں سب سےپرانا بلاک، جو جنوب مشرق کی جانب تھا اور میرے دوست کا کمرہ مغرب کی طرف سیکنڈ لاسٹ تھا۔ جب میں وہاں پہنچھا تو میں نے منظور کو اس دوست کے ساتھ بیٹھے دیکھا پر میں نےسلام کیا حال احوال ہوا اورچائے پہلے سے بجلی کی ہیٹر سے تیار ہورہی تھی۔ بعد میں ہم نے چائے پی لی پر ہم نے بہت بات چیت کی شام ڈھلتے ہی منظورنےاپنے گھرکی راہ لی اس کےبعد منظورسے زیادہ تر ملاقاتیں ہوتی رہیں۔

حالات ہروقت ایک ڈگر پر چل نہیں سکتے، یہی قدرت ہے مگر یہ آپ پر منسوب ہوگا حالات کس طرح اپنےخواہش کے مطابق ڈالتے ہیں۔ اسی طرح ہمارےمعمول سی حالات اب بدلنے لگے، جس کےبعد شب و روز منظور کےساتھ رہنے کا موقع ملا، سیاسی حالات کےپیچیدگیاں بڑھ رہے تھے، جس کا آغاز رضاء جہانگیر اور امداد کی شہادت سےشروع ہوا، مگررضاء اور امداد کی شہادت سے ہمیں یہ احساس نہ ہوا کہ حالات ابترسے ابترہوجائینگے، کچھ وقت بعد ہمیں احساس ہوا حالات بدلتے جارہے ہیں کبھی اور کسی وقت ہمیں لپیٹ میں لینگے، دو واقعات سے ہمارے خدشات کا اچھی طرح اندازہ لگایا جاسکتا ہےاولاًکہ 2013 کےآخری مہینوں میں یعنی امداد کی شہادت کچھ وقت بعد منظور نے ہم سے پوچھا ہمارے لٹریچرکیلئے کسی کمرے کا انتظام ہوسکتاہے؟ لیکن پہلےہم نےمنع کیا کہ جگہ نہیں ہوسکتا اس لئے کہ ہمیں خدشہ ہورہا تھا کہ ہوسٹل میں لٹریچرلےآنا اور لے جاناجس سےرش رہے گا، ہمارے لئےمسئلہ پیدا کرنےکاسبب بنےگا۔ خیر بعد میں ہم نےکمرےکاانتظام کرلیا، پھر دوسرا ایسا ہوا کہ ہم دوست ایک جگہ تنظیمی کاموں کےسلسلے میں بیٹھے تھے ایک دوست نے کہا حالات سازگارہیں، ہمیں اس موقع کا فائدہ اٹھانا چاہیے اورتیزی سے اپنے پروگرام کو آگے لے جانا ہوگا، میں نےایک اور دوست نے درمیان میں مداخلات کرتے ہوئے کہاکہ کیسے حالات سازگار ہیں ہوسکتا ہم پر ابھی تک اسکے اثرات نہیں پڑ چکےہیں مگر ابھی حال ہی میں بی این ایم کے ذمہ دار کو اغواء کیا گیا ہے(عادل اس وقت اغواء ہوچکے تھے)جس سے یہ ظاہر ہوتا حالات سازگار نہیں ہیں۔ اتفاقاً ہفتے یا دس دن کے اندر رسول جان اغواء ہوگئے۔

درحقیت میں بذات خوداس وقت یہی سمجھتا تھاپہلے کریک ڈاؤن ہوسٹل سے شروع ہوگا، مگر اس کے برعکس رسول جان اس کا شکار ہوا اورساتھ ہی ہوسٹل میں بھی چھاپہ پڑ گیا، جہاں بی ایس او آزاد اور بی این ایم کے لٹریچر برآمد کرلئے گئے، جنہیں کوئٹہ پریس کلب کا زینت بھی بنایا گیا کہ دہشتگردی سے منسوب مواد ہیں، مگر کسی زی شعور انسان کی حیرانگی کی انتہا نہیں رہی ہوگی کہ ان دہشتگردی سے جڑے کتابوں میں وہ کتابیں بھی شامل تھیں جو لاہور اور کراچی جیسے بڑے بڑے شہروں میں آسانی دستیاب ہیں۔ اس سے انداز لگایا جاسکتا درحقیقت مواد میں مسئلہ نہیں مگر مسئلہ یہ ہے کہ جہاں یہ کتابیں برآمد کئیے گئےوہاں ایسی کتابیں نہیں ہونی چائیے۔ان مسلسل واقعات کے بعد تربت میں سرفیس سیاست تنگ سے تنگ ہوتا گیا اس کے بعدبی این ایم کے ایک اورذمہ دار اغواء ہوئے، ان واقعات سے تربت کی سیاست میں نمایاں تبدیلی واقع ہوئی، ایک یہ تربت کی سیاست ذمہ داریاں نئے کاندھوں پر رکھا گیا،چاہے وہ بی ایس او ہو یا بی این ایم دونوں ادارے بہت حدتک متاثر ہوچکے تھے، بی این ایم کی ذمہ داری منظور کے کانددوں پر آگئی۔ اسکے ساتھ منظور در پہ در ہوتا گیا رات کہیں اور پھر دن کہیں اور گھر نزدیک ہوتے ہوئے بھی دور ہونے لگا۔ کچھ رات کوہ مراد تو کچھ راتیں بازار کے کمروں میں اسی طرح کچھ رات کسی دوست کےگھر میں مگر کام کاتسلسل برقرار رہا، یہ خوف کا ماحول بھی برقرار رہا۔ جب کبھی منظور کو لگا بہت زیادہ وقت شہر میں گذار چکا ہے، تو شہر سے باہر چلا جاتا، کبھی شاپک سے لیکر ہوشاب تک کبھی بالگتر بلیدہ تمپ اور دشت میں ہوتا۔ مگرایک چیز تھی شروع شروع میں ہم ابھی تک تربت شہر میں رہ رہے تھے۔ حالات بہت حدتک سنگین تھے لیکن ہمیں رہائش کیلئے اتنی پریشان نہ ہوئی جو بعد میں ہوئی کیونکہ پہلےہم زیادہ ترچاہ سر میں رہائش پذیر تھے۔ اُس وقت تربت شہرکے باقی جگہوں کی نسبتاًچاہ سر کا علاقہ زیادہ تر محفوظ تھا، مگر بدقسمتی سےاسی دورانیئے میں عقیل اپنے پانچ ساتھیوں کے ساتھ چاہ سر میں شہید کئے گئے۔ اب وہاں پر بھی ٹہرنا مشکل زیادہ ساتھ ناممکن ہوچکا تھا اسلئے ہم در پہ در ہوتے گئے، بعد میں جتنا ہم تربت شہر میں رہے دن رات مختلف جگہوں پر گذارتے گئے، یوں سیاست کا دورانیہ سخت سے سخت ہوتا جارہا تھا۔

میں کچھ وقت کیلئے علاقے میں جاچکا تھا، ایک دن اچانک میرے چھوٹے بھائی نے دور سےمجھےآواز دی منظور اور عالم فلاں بندےکےگھر میں ہیں اور آپ ہی کوبلا رہے ہیں (یہ تقریباً 2015 کی بات تھی) جب میں وہاں پہنچھا تومنظور اور عالم کا تھوڑا بہت حال احوال ہوا، مگروہ جلدی میں تھے انہیں آگے اپنا سفر جاری رکھنا تھا، درحقیقت منظور اور عالم نےمجھے اسلئے بلایاتھاکہ ان کے پاس سفرکیلئے پیسہ نہیں تھا اور موٹر سائیکل (ویسے وہ موٹر سائیکل نہ تھا ایک کباڑہ تھا) میں پٹرول بھی کم تھا، وہ اس امید سے آئے تھے کہ یہاں ہم کچھ کریں گے، مگر میرے پاس کچھ بھی نہ تھا لیکن ہم نے ایک دکاندارسے پٹرول ادھار لی کسی اور سےکچھ پیسے بھی۔ پھروہ چلے گئے جس کے بعدفون پہ حال احوال ہوا مجھے کہا کہ کوئٹہ آجائیں ملاقات کیلئے لیکن میں نے منع کیا، پھر بہت وقت رابطہ نہ ہوسکا، ڈاکٹر منان کی شہادت کے کچھ دن بعداس نے مجھے رابطہ کیا، منظور بہت دکھی تھا کہ ڈاکٹر سے جوآخری میری ملاقات تھی بہت وقت پہلے ہوا تھا میرے قریب تھا اور میرے بارے میں پوچھتا تھا لیکن آخری وقت میں اس سےملاقات نہ ہوپایا۔

اس کے بعد پھر رابطہ نہ ہوپایا، تقریباً مارچ کے آخری دنوں میں مجھ سے اس نے رابطہ کیا، میں نے پوچھا کب آرہے ہواس نےکہا کہ کوہ مراد لازماً آجاؤں گا اور وہیں پر ملینگے- ویسے وہ وقت قریب آرہا تھا، میں وعدےکے مطابق کوہ مراد پہ چلا گیا لیکن منظور نہ آسکا اور بعد میں میں نے بھی نہ جانے کا فیصلہ کیا۔ منظور ضرور یہ جانتا ہوگاکہ وہ مراد کا رونق ہےاسکے بعد کوہ مراد ویران ہوچکا ہے، وہ رونق ختم ہوچکی ہے، وہ کتابیں، وہ پمفلیٹس اب نہیں ملتے- منظور اور کوہ مراد لازم وملزوم تھے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔