کرونا وائرس اور پسماندہ بلوچستان – خالدہ بلوچ

213

کرونا وائرس اور پسماندہ بلوچستان

تحریر: خالدہ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

عالمی سطح پر آپ اِسے ایک آدھ ممالک کے بیچ کوئی جنگ تصور کریں، کوئی خدائی آفت و آزمائش یا ترقی یافتہ ممالک کے خوراک کا نتیجہ، پھر قریبی ممالک میں اس کی ناقابو پھیلاؤ بیماری کی تشخیص میں ناکامی یا پھر لوگوں کی لاپرواہی ۔ ہزاروں سوالات و خیالات مَن میں گردش کرتی ہیں اور لوگ اِس کے پیچھے وجوہات کی تلاش میں لگے ہیں ۔ بہرحال موجودہ صورتحال اور نتائج ہمارے سامنے یہ ہیں کہ اِس عالمی وباء نے پوری کائنات میں انسانیت کو بہت بری طرح سے متاثر کیا ہوا ہے ، تاہم یہ وبا قابو سے باہر ہے۔ وقت کا تقاضہ ایک دوسرے پر الزام تراشی و تنقید کرنا نہیں بلکہ اِس وبا کی مزید پرچار کی تدارک پر توجہ مرکوز کرنا ہے۔

یقیناً جن متاثرہ ممالک جیسے امریکہ، چین، اٹلی اور دیگر ہمسایہ ممالک جہاں کرونا وائرس نے بڑی تعداد میں لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارا ہے ، نے اپنی اقوام کو بچانے و تحفظ کی غرض سے ہرطرح کی حفاظتی تدابیر اپنائیں اور حکومتی انتظامات سخت بنا کر لوگوں پر لاگو کردیں تاکہ اِس وبا پر قابو پاسکیں اور کسی حد تک وہ کامیاب بھی رہی ہیں۔ کیونکہ یہ تمام حلقے تعلیم یافتہ اور باشعور اقوام پر مشتمل ہیں اور صنعت و حرفت کی سہولیات سے مستفید ، جن کی جنگ محض ایک بیماری سے ہے ، اِس لئے ہزاروں جانیں کھونے کے بعد بھی وہ شاید کامیابی سے ہمکنار ہونگے۔

لیکن اِس کے برعکس معاشی ، صنعتی ، تہذیبی ، تعلیمی ، شعوری غرض ہرطرح سے کمزور خطہ پاکستان کے ساتھ جڑے بلوچستان میں تاحال کوئی سنجیدہ احتیاطی صوبائی حکومتی نظام نظر نہیں آتا اور نہ ہی عوام اس امر کو سنجیدہ لے رہی ہے ۔قابِل ترس اور پس قسمت بلوچ قوم ازل سے ہی تمام تر سہولیات سے محروم رہی ہے، چاہے وہ بجلی ہو، پانی ہو، یا سماجی ضروریات وغیرہ اور بے شک اِن سب سے اول درجے پر بنیادی حق یعنی تعلیم ہے ۔ جو آدھے سے زیادہ آبادی کو نصیب نہیں اس لئے کہ وہ غربت جیسی آہ کے لپیٹ میں ہیں اور یہی آہ بھی تو ہمارے نااہل حکومت کا دہندہ ہے ورنہ بلوچستان جیسی سرزمین وسائل سے اتنا امیر ضرور ہے کہ اس کا ایک بھی باسی بھوک سے مرنے یا ایک کھٹن زندگی بسر کرنے کا مستحق ہو۔

آج تعلیمی فقدان اِس قدر پروان چڑھا ہے کہ ایک طرف جہاں اِس وائرل وباء نے دنیا میں مجموعی طور پر لاکھوں زندگیاں نگل لی اور ہزاروں کو لپیٹ میں لے چکا ہے وہیں دوسری طرف ہمارا سامنا اندرونِ بلوچستان اب بھی ایسے لوگوں سے ہے جو اِس مہلک وبا کو ایک جھوٹی افواہ قرار دیکر بھروسہ تک بھی نہیں کرتے , یقیناً جو اس وبا کی وجود سے انکاری ہیں وہ احتیاطی تدابیر پر عمل پیراں کہاں ہونگے بلکہ اس بیماری کی پرچار میں بڑا مثبت کردار ادا کرینگے ۔آج بلوچستان پڑھا لکھا ہوتا تو شاید ہماری جنگ محض کرونا سے ہوتی نہ کہ جہالت سے ۔ چلیں تعلیمی گِلہ یہی چھوڑ دیتے ہیں، شاید یا پھر درحقیقت ہمارے ناخواندہ مخلوق کو اُن کے خواندہ بھائی ہی بےیقینی کی کیفیت سے باہر نکال لینگے ۔ اب بات یہ ہیکہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے عوام گھر پر ہی قیام پزیر ہے جس کی وجہ سے اب معلومات حاصل کرنے کا اُن کے پاس صرف ایک زریعہ یعنی نیٹ ورک ہے جو پہاڑی علاقوں میں وجود ہی نہیں رکھتی، اور دیگر بیشتر علاقوں میں کچھ سبب معطل یا پھر ناکارہ ہے ۔ ایسے حالات میں بلوچ قوم کیسے معلومات سے ہمکنار ہوکر خود کو محفوظ رکھ سکے گی؟

ہمیں تعلیم نہیں ، اور اگر ہے تو لگ بھگ شعور نہیں ، وسیلہِ معلومات (نیٹ ورک) نہیں ، جِن قابلِ احترام میڈیکل فیلڈ سے جڑے مخلوقِ خدا کی خدمت گاروں کے لئے گذشتہ 27 مارچ 2020 کو پرچم لہرائے گئے اور اُن سے اپنی محبت کا اظہار کیا گیا , اُن عظیم ہستیوں کو اندرونِ بلوچستان صوبائی حکومت حفاظتی سامان تک مہیا نہ کرپائی اور نتیجہ یہ نکلا کہ ایک نوجوان ڈاکٹر قیصر پانیزئی مریضوں کی تیمارداری میں اُنہی سے متاثر ہوا ۔ جہاں دوسرے لوگوں کی جان بچانے ڈاکٹر عملہ چوبیس گھنٹے ڈیوٹی پر تعینات ہیں وہاں وہ بذاتِ خود بنیادی و حفاظتی سہولیات اور دیگر مطلوبہ سامان سے محروم ہیں , ایسے میں ڈاکٹرز اپنی ذمہ داری کس طرح سرانجام دیں گی اور پھر اس وباء کی پھیلاؤ کو کیسے روکا جاسکے گا؟ لامحالہ بغیر سیفٹی کٹس و دیگر اشیاء کے ڈاکٹرز گَنز وِد نو بُلٹس (Guns with no bullets) کی طرح ہیں جو چاہ کر بھی آگے نہیں بڑھ سکتے چونکہ اُن کا کام بیماری کو روکنا ہے نہ کہ اُس کو پھیلانا۔

اِس خطے میں مظلوم عوام کو ہر بنیادی ضرورت کے لئے سڑکوں کا رُخ کرنا پڑتا ہے، کبھی بجلی کی بحالی ، کبھی پانی، کبھی سڑکیں، کبھی تعلیم ، کبھی انصاف تو کبھی دیگر بنیادی حقوق ، اور بڑی شرم و حیاء کی بات ہیکہ جہاں ایک طرف پوری دنیا حتیٰ کہ اندرونِ پاکستان دیگر صوبوں میں پوری طرح سے لاک ڈاؤن برقرار ہے وہیں دوسری جانب اِن سنگین اوقات میں بھی میڈیکل اسٹاف بحالت مجبوری حکومت سے بنیادی سہولیات کے لئے احتجاج سراپا ہیں۔

آخر حکومت اور ذمہ داران کب خواب خرگوش سے بیدار ہونگے اور سنجیدگی سے اپنی قوم کا سوچیں گے ، تمام لازمی سہولیات مہیا کرینگے ۔یہ بات طے ہے کہ ہم ناخواندہ ، مفلس و بے احتیاط قوم سے ایک بار یہ وباء چھوٹی تو شاید امریکہ و اٹلی سے بھی بدتر حالت سامنے ہونگے اور اس وقت بہت دیر ہو چکا ہوگا ۔

بلوچ قوم سے بالخصوص التجاء ہے کہ اِس نازک وقت میں بھی شاید آپ کو سہولیات میسر نہ ہوں ، لہٰذا اپنی حفاظت اپنے آپ احتیاطی تدابیر اپنا کر کریں اور گھر پر رہ کر خود کو اور اپنے خاندان کو محفوظ رکھیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔