اگر آزاد ہونا ہے، ریحان بننا پڑے گا – سراج کُنگُر

379

اگر آزاد ہونا ہے، ریحان بننا پڑے گا

تحریر: سراج کُنگُر

دی بلوچستان پوسٹ

ریحان کیا تھا؟ ریحان ایک بلوچ فرزند تھا، ایک ماں کے جگر کا ٹکڑا تھا، ایک بہن کا بھائی تھا، ایک بھائی کا لخت جگر تھا اور ایک استاد کا خون تھا مگر کیسے بلوچ قوم کے دلوں میں راج کرگیا؟ اس نے اپنے محنت و جذبے، ہمت و حوصلے سے ایک مقام حاصل کیا اور قوم کے دلوں میں ہمشہ ہمشہ کیلئے اپنے لیے جگہ بنالی اور سب کے دلوں میں چراغ بن کر جگمگارہا ہے۔

ریحان نے وہ کام سر انجام دیا، جس کام کی وجہ سے پوری دنیا حیران ہوگیا اور سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ بلوچ قوم کے اندر ابھی بھی نڈر بہادر حوصلہ مند نوجوان ہی‍ں۔ جو اپنے قوم اور مادرے وطن کی دفاع میں کسی بھی حد تک جاسکتے ہی‍ں اور بڑی بڑی قربانیاں دینے سے گریز نہیں کرتے اور بڑے بڑے کاموں کو سر انجام دیتے ہیں۔ ریحان کے اس بڑے فیصلہ نے پوری دنیا کو ماننے پر مجبور کردیا کہ بلوچ قوم ایک نڈر و بہادر قوم ہے اور اس کے اندر ریحان جیسے بہادر فرزند موجود ہیں۔ جو اپنے وطن کا دفاع کرسکتے ہیں اور بڑے بڑے فیصلہ لے سکتے ہیں۔

ریحان نے فدائی حملہ کرنے کا فیصلہ کیوں کیا تھا اور فدائی کرنے کا اصل مقصد کیا تھا اور کیوں اتنا بڑا فیصلہ لیا؟ ریحان بھی آپ کی طرح تھا اُسکی زندگی آپ کی زندگی جیسی تھی۔

اگر ریحان چاہتا تو ریحان پڑھ سکتا تھا، نوکری حاصل کرسکتا تھا، آپ جیسی زندگی گذار سکتا تھا، مگر ریحان نے ایسا کیوں نہیں کیا؟ اور کیا فرق ہے باقیوں اور ریحان کے درمیان جو ریحان نے فیصلہ کیا کہ میں فدائی کرونگا اور اس بے مقصد زندگی کو نہیں جیوں گا اور ایک مقصد کیلئے اپنا سب کچھ نچھاور کردونگا اور کردیا؟ اس کا اصل مقصد تھا، بلوچ قوم کی خوشحالی، ریحان کو معلوم تھا کہ آزادی یوں ہی حاصل نہیں کی جاسکتی، اگر آزاد ہونا ہے تو بڑی قربانی دینی ہوگی، تب ہم آزاد ہوسکتے ہیں اور ریحان نے وہی کیا، جو ہر بلوچ فرزند کو کرنا چاہیئے، اگر آزاد ہونا چاہتے ہو تو قربان ہونا پڑیگا اور اسکے علاوہ کوئی ایسا راستہ بھی نہیں ہے جسے اپنا کر بلوچ قوم اپنے منزل تک پہنچ سکے اور صرف بلوچ قوم کو اپنے مقصد تک پہنچا سکتا ہے تو وہ راستہ فدائی مجید جان، فدائی درویش جان، فدائی ریحان جان کا ہے۔ جو ہمہیں منزل تک پہنچا سکتا ہے اور اسی راستے سے ہماری امیدیں ٹکی ہیں۔

اسی راستے سے ہمہیں منزل نظر آتی ہے اور اس راستے کے سوا اور کوئی راستہ ہمہیں منزل تک نہیں پہنچا سکتا ہے، اگر پہنچا سکتا ہے تو صرف یہی راستہ ہے۔

ہم ہر وقت اپنے آپ کو پیچھے رکھتے ہیں، اپنے آپ کو انجان بناتے ہیں، اپنے منزل کو چھوڑ کر کسی اور راستے کو چنتے ہیں، اگر اچھی طرِح غور کریں تو ہم اپنے آپ سے بھی دوری بنائے رکھتے ہیں، اسکا اصل وجہ کیا ہے؟ کیوں ہم ایسا کرتے ہیں؟ ہم اُس منزل مقصد سے دوری بنارہے ہیں، بلکہ ہمہیں اُس منزل کے کاراون کے ساتھ ساتھ ہونا چاہئے بلکہ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر دشمن کا سامنا کرنا چاہئے، مگر ہم ایسا نہیں کرتے، ہم دوری بناتے ہیں اپنے آپ کو انجان رکھتے ہیں، منزل سے مقصد سے۔

یہی ایک کمزوری ہے بلوچ قوم کے نوجوانوں کی جو قربانیاں دیتے ہیں مگر کچھ ایسی جگہوں پر اپنے قیمتی جان کو نچھاور کرتے ہیں، جہاں اپنی قدر و قیمت نہیں جانتے ہیں اور جہاں قربانی دینے کی جگہ ہوتی ہے وہاں اپنے آپ کو دور رکھتے ہیں۔ قربانیاں اس جگہے پہ دو جہاں تم خود جان سکو کہ میں قربانیاں آخر کیوں دے رہا ہوں اور میرا مقصد کیا ہے. کچھ ایسے عظیم اشخاص ہوتے ہیں، جو اپنی جانوں کا نظرانہ ایسی جگہوں پر پیش کرتے ہیں کہ انتہائی درد ہوتا ہے، یہ امر سوچنے پہ مجبور کرتا ہے کہ اس نے ایسا کیوں اور کس وجہ سے کیا؟ نہ اس جگہ کوئی مقصد ہے اور ناہی کوئی ایسا کچھ کہ کسی کا بھلا ہو. مگر کچھ اشخاص کسی بھی کام کو سرانجام دینے سے گریز نہیں کرتے۔

اگر آپکو آزاد ہونا ہے، ایک آزاد و محکم ریاست بنانا ہے تو آپ کو قربانیاں دینی ہوگی اور ریحان جان بننا پڑے گا، اپنی سوچ کو مظبوط و پختہ کرنا ہوگا اور قربانی دینی ہوگی۔ تب آپ کو آزادی مل سکتی ہے اور اگر ایسا نہیں کرو گے تو پیچھے کے پیچھے رہ جاؤگے۔ دشمن کا سامنا کرنا آسان نہیں ہے، مگر ناممکن نہیں ہے، کوشش کرو گے تب جیت پاؤگے.

جیت کیلئے تن و من سے، مخلصی سے، حوصلے سے، جذبے سے، نظریئے کے ساتھ دشمن کا سامنا کروگے، تب جیت حاصل ہوگی، جیت کیلئے آپ کو لڑنا ہوگا، دشمن پر قہر بننا ہوگا، فدائی درویش بنناہوگا، ریحان بنناہوگا، مجید بنناہوگا، تب آپ آزادی پا سکو گے؛ ہم سب کو اچھی طرح معلوم ہے کہ دنیا بلوچ قوم کے بارے میں کتنی جانکاری رکھتی ہے اور کس حد تک بلوچ مظلوم قوم کی باتوں پر یقین کرتی ہے اور اُن باتوں پر عمل کتنی حد تک کرتے ہیں، یہ بات بلوچ قوم کو اچھی طرح معلوم ہے، دنیا اپنی مفاد کے پیچھے چلتی ہے اور اگر ہم دنیا کے انتظار میں بیٹھیں کہ دنیا ہماری آزادی کی بات پر توجہ دےگا تو یہ ہماری غلط فہمی ہوگی کیوںکہ جب تک آپ خود کچھ نہیں کروگے تب تک کوئی آپکی طرح دھیان نہیں دیگا اور اگر تم خود کچھ بڑا کر دکھاؤگے تو دنیا کے ممالک کا دھیان تم پر ہوگا، مگر تم کو خود کچھ کرنا ہوگا۔.

آج کل کے زمانے میں بندوق کئی طریقوں سے استعمال ہوتی ہے، جیسے کہ ایک چور چوری کرنے میں استعمال کرتی ہے، ڈاکو ڈاکہ ڈالنے کیلئے استعمال کرتا ہے، غنڈے غنڈا گردی کیلئے استعمال کرتے ہیں، جہد کار اپنے مظلوم قوم اور اپنی سرزمین کے دفاع میں استعمال کرتے ہیں، یعنی بندوق جس بھی طریقے سے استعمال ہوتا ہے، ان سب کے پیچھے وجوہات ہوتے ہیں، وجوہات کیسے ہیں اور کیا ہیں؟ چور کا وجہ اپنے مفاد کیلئے چوری کرنا ہے، چاہے کتنا بڑا کام بو سرانجام دیتے ہیں، مگر فائدہ کچھ نہیں ہے کیونکہ وہ صرف اپنے لیئے کرتا ہے، نہ کہ کسی کی بھلائی کیلئے کرتا ہے، اس لیئے چور جتنا بڑا کام کرے لیکن دنیا اُس.کو چور کہتا ہے اور قرار بھی دیتا ہے؛ ڈاکو ہو یاکہ غنڈا ہو کام بندوق کے نوک پر بڑا کرتے ہیں مگر فائدہ کچھ نہیں ہے اور اس لیے نہیں ہے کہ ان کے پاس مقصد نہیں ہوتا، صرف مفاد کیلئے کرتے ہیں اور ایک جہد کار کے پاس بڑا منظر ہوتا ہے، بڑا مقصد ہوتا ہے، اگر کوئی چھوٹا کام سرانجام دیتا ہے تو اُس چھوٹے کام کا نتیجہ دنیا کے سامنے بڑا ہوتا ہے اور اگر بڑے کام کو سرانجام دیں تو اُس بڑے کام کا نتیجہ دنیا کے اندر کتنا اثر ڈال سکتا ہے، ذرا سوچیں ، اس لیئے ہمارے سر کماش کہتے تھے کہ اگر آپ بڑے خواہشات رکھتے ہیں تو اُس کو حاصل کرنے کیلئے قربانی بڑی ہونی چاہئے یونہی ہاتھ پہ ہاتھ رکھنے سے حاصل نہیں کر سکتے ہیں۔ بڑے خواہشات کی امید رکھتے ہو تو اُس کو حاصل کرنے کیلیے بڑے کاموں کو سرانجام دینا پڑے گا، تب اُسکو حاصل کر پاوگے، جیسا کہ میں نے پہلے واضح کیا تھا کہ آپ کو ریحان جیسا بننا پڑے گا۔

استاد جنرل اسلم بلوچ کی جو محنت تھی، ہمت و حوصلہ تھا، جذبہ تھا، یعنی بڑے کردار کے واہمد تھے. اور جتنا بھی تعریف کیا جائے کم ہے کیونکہ ایسے بہادر شخصیات اکثر قوموں کے اندر کم ملتے ہیں، ج انتہائی محنت کش ہوتے ہیں، حوصلہ مند ہوتے ہیں، زانت مند و دانا ہوتے ہیں، مزاحمت کے راستے میں پختگی سے کام لیتے ہیں، صبر و برداشت سے کام لیتے ہیں، ایمانداری تو انکے اندر بھری ہوتی ہے، میں تو اپنے شبدوں کو بہت بے سہارا محسوس کرتا ہوں، جب بڑے کردار کے بارے میں کچھ لکھنے کی چھوٹی کوشش کرتا ہوں، زیادہ تو نہیں لکھ سکتا ہوں مگر آج ہم اس مقام پر ہیں تو وجہ ہمارے بڑے کرداروں کے مالک شہید ہیں، جو انکی. بنائی گئی سنگ میل ہیں، سنگر ہیں، جو ہم اس مقام پر پہنچے ہیں اور آگے انکی ہی فکر و نظریہ کے ساتھ جانے کی کوشش کریں اور ہم کو یقین ہے کہ ہم منزل تک پہنچ سکتے ہیں تو صرف و صرف شہیدوں کی محنت و قربانیوں کی بنائی گئی راستوں کی بنیاد پر۔

بلوچ قوم نڈر اور بہادر قوموں میں سے ایک ہے؛ جو ہمیشہ سے میدان جنگ میں بہت سے سامراجوں کو منہ توڑ جواب دیتا رہا ہے اور آج کے دور میں بھی یہ جنگ چلتی آرہی ہے، مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہم آج کے دور میں، آج جنگ میں یہ سمجھ نہیں رہے ہیں کہ ہمہیں کس طرح لڑنا ہے۔ پاکستانی فوج کو کس طرح منہ توڑ جواب دینا ہے، کس طرح آزادی حاصل کرنی ہے، بلوچ قوم بیشک بہادر ہے، مگر بہادری کے ساتھ عقل مندی، دانائی، پختگی، سوچ وبچار ضروری ہے، عقل مندی سے سنجیدگی سے کام لینا دشمن کیلئے طوفان سے زیادہ خطرناک ثابت ہوسکتا ہے، آپ کا عمل اتنا بڑا ہو، اتنا طاقتور ہو؛ جو دشمن کی بولتی بند کرے اور دشمن کو سوچ پر مجبور کرے؛ آپ کی حکمت عملیاں اتنی مظبوط ہوں کہ آپ جس کام کو انجام دینگے، اُس کام کے بعد دشمن کو کانوں کان تک خبر نہ ہو کہ اس کام کو کس نے انجام دیا؛ تب دشمن کی چالوں کو آپ توڑ سکتے ہو، دشمن کو شکست سے دوچار کرسکتے ہو؛ مگر اس مقام تک پہنچنے کیلئے میں نے پہلے واضح کیا تھا کہ آپ کو جانباز ریحان؛ بہادر مجید؛ محنت کش درویش؛جیسا بننا پڑے گا. تب آپ آزادی حاصل کرپاسکوگے۔

ہمارے پاس پہلے سے ہی بنائی گئی چیدگیں ہیں، مظبوط راستے ہیں، جو شہیدوں کی محنت و قربانیوں کی بدولت ہے۔ ان کی بدولت ہم اپنی منزل کے جانب جاسکتے ہی‍ں، اپنا مقاصد پاسکتے ہیں، اپنے قوم کو حفاظت دے سکتے ہیں، اپنی بقا بچا سکتے ہیں، مگر اس کیلئے عمل کرنا ہوگا اور قربانیاں دینی ہونگی، بنا محنت و قربانی کے آزادی حاصل کرنا کسی قوم کی بس کی بات نہیں ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔