بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی ترجمان نے زاہد بلوچ کی گمشدگی کو چھ سال مکمل ہونے پر کہا کہ زاہد بلوچ کی جبری گمشدگی پاکستان کا پرامن سیاسی جدوجہد سے خوف کی علامت ہے اور یہ بلوچ آزادی پسند سیاسی پارٹیوں اور تنظیموں کے خلاف پاکستانی بربریت کا حصہ ہے۔ بلوچستان میں جبری گمشدگیاں روز کا معمول ہیں۔ اس میں زاہد بلوچ، بی ایس او اور بی این ایم کے رہنماؤں سمیت مختلف مکتبہ فکر کے لوگ شامل ہیں۔ زاہد بلوچ بی ایس او آزاد کے چئیرمین کی حیثیت سے ایک پر امن جد وجہد کے ذریعے بلوچ قومی تحریک میں اپنا کردار ادا کر رہے تھے۔ زاہد بلوچ کی نوجوانوں کو متحرک کرکے واضح سمت دینے اور شعوری تربیت سے خائف پاکستان نے انہیں راستے سے ہٹانے کیلئے اپنی بدنام زمانہ پالیسی ”جبری گمشدگی“ کا سہارا لیکر انہیں اذیت گاہوں میں منتقل کردیا۔ آج انہیں چھ سال پورا ہوچکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان پر قبضے کے بعد سے بلوچستان میں جبر کی داستانیں رقم ہو رہی ہیں۔ ہر گزرتے وقت کے ساتھ پاکستانی بربریت اور جبر میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ فوجی آپریشنوں، ٹارگٹ کلنگ، جعلی مقابلوں، مارو اور پھینکو، جبری گمشدگی، اجتماعی قبروں غرض پاکستان نے بلوچ قوم کے خلاف جبر و بربریت کے تمام حد پار کرلئے ہیں۔
ترجمان نے کہا کہ زاہد بلوچ ایک تعلیم یافتہ نوجوان اور باشعور سیاسی اور طلبا رہنما ہیں۔ انہوں نے بی ایس او آزاد میں مرکزی کمیٹی کے ممبر،سیکریٹری جنرل اور چیئرمین کی حیثیت سے بلوچ طلبا سیاست کو بڑی درسگاہوں سے نکال کر دیہی و دور دراز علاقوں تک پہنچانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔
انہوں نے کہا کہ بلوچ قومی تحریک کو کچلنے کے لئے جبری گمشدگی کی پالیسی کے تحت ذاکر مجید، ڈاکٹر دین جان، سمیع مینگل، غفور بلوچ، رمضان بلوچ، سمیت کئی سیاسی رہنما اور کارکن کئی سالوں سے پاکستان نے ٹارچر سیلوں میں منتقل کرکے ان پر غیر انسانی اذیت تشدد کررہا ہے۔ شہید غلام محمد، ڈاکٹر منان جان اور قمبر چاکر سمیت ہزاروں بلوچ پاکستانی فوج کے ہاتھوں قتل کئے جاچکے ہیں۔ پاکستان ان تمام غیر انسانی حربوں کے باجود بلوچ قوم کو شکست دینے میں ناکام ہے۔ قومی تحریک آج بھی آب و تاب کے ساتھ منزل کی جانب رواں دواں ہے۔
ترجمان نے کہا کہ ان تمام عالمی اداروں کو اپنا وعدہ وفا کرنا چاہئے جنہوں نے زاہد بلوچ کی رہائی کے لئے کردار ادا کرنے کی یقین دہائی کرائی تھی۔