شاھبیگ بلوچ
جنگ ایک ایسی کیفیت ہے کہ جس میں انسان پہلے سے مستقبل میں رونماء ہونے والے حالات و واقعات کا تجزیہ کرکے ہی منزل کی طرف گامزن ہوسکتاہے۔ اگر کوئی شخص لاشعوری طور پر جنگ میں حصہ لیتا ہے یا پھر ایڈوینچرزم کے شوق میں جنگ کی بنیاد رکھتاہے تو وہ ان حالات کا مشاہدہ شاید نہیں کرسکتا اور اگر کوئی شخص جنگ میں پیش آنے والی سختیوں اور دشواریوں کو سمجھنے سے قاصر ہو تو، ایسا شخص یا کردار پھر چاہے کسی بھی مقام پر ہو سختیوں کے سامنے سجدہ ریز ہوکر اپنی جدوجہد سے دستبردار ہوکر کنارہ کش ہو جائےگا یا پھر اپنے ہی دشمن کے بندوق کو تھام کر اپنے ہی لوگوں پر زورآزمائی شروع کردے گا۔
اب اگر پاکستانی فوج کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو چند بے شعور اور جذباتی بلوچ نوجوان ہیں، جو بلوچستان میں آزادی کی مانگ کررہے ہیں۔ انکو مات دینا کونسی بڑی بات ہے۔ پاکستان کا ہر نیا آنے والا فوجی جنرل ہر نیا وزیر اور خفیہ اداروں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا گزشتہ ۱۷ سالوں سے یہی کہنا ہے۔ لیکن وہ ابتک بلوچوں کو ناکام کرنے اور ان کے دلوں میں موجود آزادی کے شمع کو نہیں بجھا سکے۔
دوسری جانب اگر حالات اور واقعات کا باریک بینی سے تجزیہ کیا جائے تو اندازہ لگانا قطعاً مشکل نہیں ہوگا کہ بلوچستان میں ایک مکمل سیاسی اور سائنسی اصولوں پر کاربند آزادی کی جدوجہد جاری ہے۔ جس کو ختم کرنے کیلئے پاکستانی فوج اور اس کے کاسہ لیسوں نے تمام تر حربے آزمائے لیکن ناکامی اُنکا مقدر بنی۔ پاکستانی فوج نے بلوچوں پر ظلم اور بربریت کے پہاڑ توڑے لیکن انہیں اپنی منزل سے دور نہ کرسکا بلکہ اُس کا ہر ایک ظلم بلوچ قوم میں پاکستان کیخلاف نفرت میں اور اپنی وطن اور وطن کی خاطر لڑنے والوں کیلئے مزید ہمدردی اور محبت میں اضافہ پیدا کرتاگیا۔ ڈاکٹر اللہ نظر کے اغواء کا واقعہ ہو یا شہید نواب اکبر خان بگٹی پر فوج کشی، چیرمین غلام محمد اور ساتھیوں کا اغواء ہو یا پھر انکی شہادت کا واقعہ یا پھر اسکے بعد سے شروع ہونے والہ مارو اور پھینکو کا نہ رکنے والہ تسلسل ہو یہ تمام تر کاروائیاں بلوچ قوم میں ڈر پھیلانے اور ان کو اپنی جدوجہد سے دور رکھنے کی پاکستانی حکمت عملیوں کا حصہ تھیں۔
ان تمام تر ظالمانہ حربوں میں ناکامیوں اور بلوچوں میں بڑھتے ہوئے قومی جذبے کو دیکھ کر دشمن ریاست نے اپنی مکاریوں میں مزیداضافہ کرکے بلوچ عورتوں کو اپنا نشانہ بنایا اور بلوچ قومی روایات کو پامال کرکے معاشرے میں خوف پیدا کرنے کی کوشش کی گئی جس کی پہلی مثال کراچی میں نواب براھمدگ بگٹی کی ہمشیرہ کو شہید کرنا تھا، جسکا واضح مقصد براھمدگ بگٹی کو یہ پیغام دینا تھا، کہ گو کہ تم ہمارے پہنچ سے دور ہو لیکن تمہارے گھر کی خواتین اور بچے محفوظ نہیں۔ لیکن اُس حملے کاردعمل شدید اور بلوچ قوم میں پاکستان اور ایجنسیوں کیلیے مزید نفرت پیدا کرنے کا موجب بنا۔ اسی طرح سے تربت میں ایک بلوچ گھر کو فوج نے تقریباً ایک ہفتے تک معاصرے میں لیکر گھر میں موجود خواتین اور بچوں کو یرغمال بنایا تھا، جسکی وجہ بھی بلوچ سرمچاروں اور آزادی پسند سیاسی کارکنوں کے دلوں میں ڈر پیدا کرناتھا لیکن اسکے برعکس بلوچستان میں موجود سرمچاروں اور سیاسی ورکروں اور بیرون ملک مقیم ورکروں نے مزید شدت کے ساتھ ریاستی وحشت کاپردہ فاش کیا۔
آج بھی پاکستانی ایجنسیوں کی حراست میں بلوچ رہنماؤں کے گھر کی عورتیں اور بچے قید میں ہیں، جن میں ڈاکٹر اللہ نظر کی اہلیہ اور استاد اسلم بلوچ کی ہمشیرہ اور انکے معصوم بچے بھی ایف سی کی تحویل میں ہیں۔ پاکستان نے شاید یہ اقدام اسلم بلوچ اور ڈاکٹر اللہ نظر کو مجبور کرنے یا پھر سبق سکھانے کیلئے کیا ہو لیکن یقین جانیں پاکستان کے اس عمل نے بلوچ سیاسی ورکرز اور محاذ پر موجود سرمچاروں کے دلوں میں موجود آگ کو مزید بھڑکایا ہے اور ان میں پہلے کی نسبت کافی قربت اور مشترکہ طور پر دشمن سے نبردآزما ہوکر اُسے سبق سکھانے اور بلوچستان سے نکالنے کا جذبہ پیدا ہوا ہے۔