بلوچ ہیومین رائٹس آرگنائزیشن کی جانب سے آج کراچی پریس کلب کے سامنے کراچی سے اغواء ہونے والے نواز عطا اورآٹھ دوسرے کمسن طلباء کی ماورائے عدالت گرفتاری اور گمشدگیوں کے خلاف غیر معینہ مدت تک کے لئے بھوک ہڑتالی کیمپ لگایا گیا۔
بھوک ہڑتالی کیمپ میں انسانی حقوق کے کارکنوں اور کراچی سے اغواء ہونے والے بچوں کے لواحقین نے شرکت کرکے حکامِ بالاسے مطالبہ کیا کہ وہ فوری طور پر کمسن بچوں کو بازیاب کریں۔
بلوچ ہیومین رائٹس آرگنائزیشن کے ترجمان نے کہا کہ جمعہ کی شب رینجرز اور سادہ کپڑوں میں ملبوس خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے گلشن اقبال، گلشن حدید اور ملیر کوہی گوٹھ کے متعدد گھروں میں چھاپہ مار کر ایک درجن کے قریب کمسن نوجوانوں اور بی ایچ آر او کے انفارمیشن سیکرٹری نواز اعطا بلوچ کو اغواء کرکے نامعلوم مقام پر منتقل کردیا ہے۔
کمسن بچوں اور انسانی حقوق کے کارکن کا اغواء نہ صرف عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے بلکہ خود پاکستانی آئین بھی اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ کسی شخص کو بغیر کسی جرم کے لاپتہ کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ بچوں کا اغواء اور انہیں لاپتہ کرنا انتہائی پریشان کن بات ہے، اس سے بھی زیادہ پریشانی کی بات یہ ہے کہ پاکستان کی میڈیا، عدلیہ اور انسانی حقوق کی تنظیمیں مکمل خاموشی اختیار کیئے ہوئے ہیں۔گھروں سے 8 سالہ بچوں کا اغواء ایک پریشان کن خبر اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں میں شمار ہونے والا اقدام ہے، لیکن سول سوسائٹی و میڈیا کی خاموشی سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ سب ادارے ان واقعات کو انسانی حقوق کی خلاف وزریوں کے برعکس نسلی بنیاد وں پر دیکھ رہے ہیں۔
بی ایچ آر او کے ترجمان نے کہا کہ نہتے بچوں و خواتین پر تشدد، طلباء کا اغواء انسانی حقوق کا معاملہ ہے، ان اقدامات کے خلاف تمام طبقہ ہائے فکر کے لوگوں کو بھرپور طریقے سے آواز اٹھانا چاہیئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر سندھ حکومت اور سیکیورٹی فورسز نے مغوی بچوں اور نواز بلوچ کو بازیاب نہیں کیا تو ہم احتجاج کا دائرہ وسیع کریں گے۔