بلوچ تاریخ نویسی، خالی جگہیں اور مغالطے – شاہ محمد مری

1285

بلوچ تاریخ نویسی، خالی جگہیں اور مغالطے

تحریر: شاہ محمد مری

دی بلوچستان پوسٹ

یورپی اورینٹلسٹوں سے لے کر میر گل خان نصیر تک اور سوویت سکالر زسے لے کر افغان اور ایرا نی نیم مؤرخین تک نے بلوچستان کی تاریخ پر بہت کچھ لکھا ہے۔ ظاہر ہے دنیا بھر کے مؤرخوں کی طرح یہاں بھی زیادہ تر نے اہم شخصیات، ہیروؤں، بادشاہوں، سرداروں اور معزز افرادکے اقدامات ہی کو بطور بلوچ تاریخ لکھا ہے ۔مگر دوچار ایسے بھی تھے جنھوں نے نہایت سائنسی انداز میں ہماری تاریخ لکھی ہے۔ لیکن سائنس گذشتہ بیس پچیس سالوں سے بے شمارایسی نئی دریافتیں لائی کہ ہمارے پیش رو مؤرخوں کی بہت ساری تحریریں سوالیہ نشانوں سے بھر چکی ہیں۔ آرکیالوجی، اناٹومی، ڈی این اے اور ڈیجیٹل سائنس نے چار ہزار سال سے پہلے کے بلوچ کی تاریخ کے بارے میں، اکابرین کے لکھے ہوئے سارے حروف اور سارے صفحے ہی اکھاڑ دیے۔ معلومات نہ ہونے کی وجہ سے حالیہ ہماری چار ہزار سالہ تاریخ بھی ان محترم لوگوں کی توجہ سے محروم رہی۔ یوں بلوچ تاریخی تسلسل میں بڑے شگاف اور خالی جگہیں رہے گئیں اور نماز کی صفوں کی طرح تاریخی کی خالی جگہوں کو بھی شیطان ہی پُر کرتا ہے۔ چنانچہ مفروضے گھڑے گئے، تصورات کھڑے کیے گئے، کچی پکی روٹیاں پکا کر خالی جگہیں پرکی گئیں۔ اس طرح ہمارے معاشی، سیاسی اور ثقافتی ارتقا کی کہانی کا تسلسل بری طرح مسخ ہوا۔

مثلاً بلوچستان کے اوریجن ہی کو لیجیے؛ یہ باقی علاقوں کے برعکس ایک نہیں، دو ٹکٹونک پلیٹوں پر قائم خطہ ہے؛ مشرقی بلوچستان، عرفان حبیب کے بقول 144ملین سال قبل قطب جنوبی سے شمال کی طرف کھسکنے لگا تھا، 50ملین سال تک سفرِ وصال کی صعوبتیں جھیلتا اور بغیر سستائے یا آنکھ جھپکے یہ توکلی مست اپنے بلوچستان سے آن بغل گیر ہوا اور یوں سو ملین برس قبل گریٹر بلوچستان کی تشکیل ہوئی تھی۔

اس بلوچستان پر زندگی کی ابتدا اور ارتقا کے بارے میں معلومات بھی ابھی حال ہی میں ملی ہے۔ ابھی بیس برس قبل ہمارے بارکھان میں چار کروڑ ستر لاکھ قبل کے وہیل مچھلی کے فوسلز ملے ہیں، سمندر کنارے ۔مگر خشکی پر رہنے والی اس وہیل مچھلی کو ’روڈوسیتس بلوچستانانی سس‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اس کی مکمل معلومات نیشنل جیوگرافک کی ویب سائیٹ پے اور انٹرنیشنل ریسرچ جنرل سائنس کی جلد نمبر دو سو ترانوے میں موجود ہے۔ اسی طرح یہ معلومات بھی تازہ ترین ہے کہ بلوچستان ساڑے تین کروڑ سال قبل ایک سرسبز اور گھنا جنگل ہوا کرتا تھا۔ اس پورے دور کو ’ویج ایرا‘ کہتے ہیں۔ ابھی اکبر بگٹی کی زندگی کے آخری برسوں میں فرانسیسی ماہرِ فوسلز ’جان لوک ولکم‘ نے اپنی ٹیم کے ساتھ بگٹی علاقے میں طویل عرصے تک کھدائی کی اور ان جنگلات میں بلوچی تھیریم نامی جانور کے فوسلز دریافت کیے۔ یہ مہیب جانور سبزہ کھاتا تھا۔ اس کاوزن 20ہزار کلو گرام تھا اور وہ ریوڑکی صورت میں چرتے پھرتے تھے ۔

مگر سب سے زیادہ ارمان سے اس بڑے خزانے کا ذکر کروںگا جس پر نہ تو تحقیق ہوئی اور نہ اس کی اہمیت جانی گئی اور وہ ہے بلوچ مائتھالوجی۔

مائتھالوجی جو قوموں کی روح ہوتی ہے، ان کی تاریخ،ادب اور ثقافت کا مضبوط ترین فرش ہوتی ہے، مگر بلوچ کا یہ ضخیم خزانہ لکھاریوں سے نظر انداز رہا، بلوچ اپنے معاشی اور سیاسی حقوق کے لیے خوب بولتے رہے، لکھتے رہے، خوب لڑتے رہے مگر ہمیں خبر تک نہ ہوئی کہ ہماری اصل دولت یعنی ہماری اساطیری دولت ہم سے چرا لی گئی۔

بلوچ مائتھالوجی کا جھومر یعنی ہنگلاج ہم سے چھن گیا، ہماری کالی اور ہمارے کولپر کے خزانے ہم سے چرا لیے گئے اور ان پر باقاعدہ ایک مذہب تشکیل دیا گیا اور پھر اسی مذہب کو حسبِ توقع سیاست میں استعمال کرکے نہ صرف ہندوستان میں رجعت پھیلائی گئی بلکہ اس پورے برصغیرمیں فرقہ پرستی کی اندھیر پھیلائی گئی۔ میں اس بحث میں نہیں پڑتا کہ مائتھالوجی مذہب نہیں ہوتی اور نہ ہی میں اس بات میں پڑتا ہوکہ مائتھالوجی سائنس بھی نہیں ہوتی۔ اسی طرح میں لوگوں سے ان کا مذہب تو نہیں چھینتا ،مگر اپنے اس میتھالوجیکل ورثے کو اپنابنانے اور اس کے ناز اٹھانے کو اپنا فریضہ سمجھتا ہوں۔

مہر گڑھ کا تذکرہ بھی بلوچ تاریخ کی کتابوں میں موجود نہیں ہے۔ اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ گیارہ ہزار سال قبل کی یہ پرانی سیولائزیشن ابھی 1974میں دریافت ہوئی، فرانسیسی آرکیالوجسٹ ’ڈاکٹر جین فرانسولی‘ کی ٹیم نے جب یہ پتہ چلایا کہ یہاں گیارہ ہزار سال قبل جَو، گندم، کھجور، دالیں اور کپاس کی کاشت ہوتی تھی ۔ہم گیارہ ہزار سال پہلے سی مکانوں میں رہتے چلے آرہے ہیں، ہم کاٹن پہنتے تھے، ایک بھرپور زرعی معاشرہ جو قدیم، متوسط اور جدید پتھر کے زمانوں سے گزرا ،پھریہی مہرگڑھ میں انسان غلام داری کے دورکی علامت یعنی کانسی کے دور میں داخل ہوا۔ ان آثار میں چھ ہزار قبل کمہار کی موجودگی بتاتی ہے کہ تب کمیونزم ٹوٹ چکا تھا، غلام داری سماج وجود میں آرہا تھا، عورت کے ہاتھ سے طاقت چھن کر مردوں کو مل رہی تھی، سماج مادر سری سے پدرسری میں داخل ہورہا تھا اور وہاں طبقاتی اونچ نیچ پیدا ہورہی تھی اور پھر یہیں اسی مہرگڑھ میں انسان ہزاروں سال لگا کر لوہے کے دور میں داخل ہوا۔

یہ سارا زمانہ ہمارے محققین، تاریخ نویسوں اور دانش وروں کی معلومات سے اوجھل رہا۔ چنانچہ ان کے نزدیک بلوچ محض چار ہزار سال قبل آریاؤں کے حملے ہی کے نتیجے میں وجود میں آیا۔ آریاؤں سے پہلے بلوچستان گویہاں آدم زاد جننے کے قابل ہی نہ تھا۔چنانچہ قیاس کے دم کٹے گھوڑے دوڑے، ہم کبھی سواستیکا سے ٹانگی ہوئی کٹھ پتلیاں بنائے گئے، کبھی ہم بیچاروں سے دراوڑستان بنوانے کی کوششیں ہوئیں اور عقیدت مند تو بلوچ کو عرب بناکر اس کے وجود کو محض 2ہزار سال تک رکھ کر اسے بونا بنانے کی کوشش کرتے رہے۔
مائگریشنوں کی بات کومسترد بھی ابھی حال ہی میں کیا گیا۔ ڈیتھ آف ایریئن انویژن تھیوری ابھی حال ہی میں سائنسی ثبوتوں کے ساتھ سامنے آچکی ہے۔ اٹالین آرکیالوجسٹوں نے حال میں بلوچستان یونیورسٹی کے سکالرز اور سائنٹسٹ کے بھرے ہوئے آڈیٹوریم میں یہ ڈاکومنٹڈدریافت شیئر کی کہ شمال اور مغرب سے ایشیا کی طرف کوئی بڑی مہاجرت ہوئی ہی نہیں تھی ،چنانچہ یہ جھوٹ ہے کہ سارے بلوچ گدھا گاڑیوں پر ڈال کر ہزاروں میل دور سے بلوچستان لاکر پٹخ دیے گئے ہوں۔
چنانچہ بلوچ کو مہر گڑھ کے دریافت کے بعد اپنی قدیم تاریخ نئے سرے سے لکھنی پڑی۔ میری دلچسپی تو پاکستان اسٹڈیز کا نصاب بنانے والے دانشوروں کے طرزِ عمل پر ہوگی کہ جب ان تک خبر پہنچے گی کہ موہن جو دڑو خطے کی تاریخ کا سرچشمہ نہیں ہے ،وہ مہرگڑھ کا بیٹا ہے اور یہ بھی کہ موہن جو دڑوکا بیٹا ہڑپہ، مہر گڑھ کا پوتا ہے تو موہن جو دڑو اور ہڑپہ تک، اور ہڑپہ کے بعد سے لے کر آج تک زندہ سلامت اور پھلتے پھولتے گیارہ ہزار سالہ مہرگڑھ نے نئی نئی قوموں، نئی نئی ثقافتوں اور نئی نئی زبانوں کو فروغ دیا۔ ان قوموں کا تشخص برقرار رہا اور یہ ایک دوسرے میں مدغم بھی ہوتی رہیں۔ یوں محنت کش جاٹ اور پشتونوں کے قبیلے کے قبیلے ہمارے دل و جگر کا حصہ بنے ۔تاجک کسان جنگ و امن کے حصولوں کے تحت بلوچ کے وسیع دستر خوان میں آکرشریک ہوئے۔ اسی طرح بلوچوں کی مزاحمت نے بلوچستان کی پیاس اور سیلابوں نے اور بلوچستان کے مچھر وں کے ملیریا بردار رنیشو نے سکندر کی اعظمی کوجب خاک میں ملادیا تواس کے زخمیوں کے ڈھال مرد و زن بھی بلوچ کے وسیع دامن میں پناہ گزین ہوئے۔

بلوچ موریا اور اشوک زمانوں میں بھی زندہ رہے اور پھر مانویت اور مزدکی کسان تحریکوں کا توہر اول دستہ بھی بلوچ رہا۔ المختصر ہم ایک بڑے اورپرانے نسلی گروہ سے اٹھے تھے، ہم بے شمار قومی گروہوں کو تشکیل دیتے رہے اور کچھ کو خود میں ضم کرتے رہے۔ چنانچہ ہزاروں برس کے پراسیس میں بلوچ ایک کثیر النسل، کثیر اللساں اور کثیر المذہب قوم بنے۔ میں اونچی مگر مہذب آواز میں کہتا ہوں کہ خالص قوم، خالص نسل اور خالص خون کے خالصتانی نظریے سے بلوچ کا کوئی واسطہ نہیں ہے۔

آج صورت یہ ہے کہ مہرگڑھ کا سورج دیوتا بھی ہمارا ہے، سواستیکا بھی ہمارا ہے، ہنگلاج کا مندر بھی ہم نے وضع کیا، قلات کی کالی اور مستونگ کا شیو بھی ہماری میتھالوجی ہے، خضدار کے زرتش گاؤں کے امین بھی ہم ہیں اور گنداواہ میں مہاتما بدھ کے آثار بھی ہمارے ہیں۔ بلوچ ہر عقیدے اور ہر مذہب کی عزت اس لیے کرتا ہے کہ یہ سب کسی نہ کسی عہد میں اس کے آبا کے مذاہب رہے ہیں۔

ہسٹاریکل مٹیریلزم کی ساری سیڑھیاں بلوچستان میں موجود ہیں۔ گیارہ ہزار سال قبل پتھر کی کلہاڑی بھی یہاں کی ایجاد ہے، بیل گاڑی اور انقلابات کا جدامجد پیہہ بھی گیارہ ہزار سال قبل مہرگڑھ میں ایجاد کیا گیا تھا ۔ہم ہی نے ’سرقبیلوی نظام‘بنایا اور ہزاروں سال تک استعمال کرکے ہم نے ہی اسے جزوی طور پرفیوڈل ازم کی تشکیل کی۔ بلوچ کا یہ سارا تذکرہ بلوچ تاریخ میں ابھی تک نہیں ہے۔

ہم اس بڑی کسان تحریک کے بارے میں بھی ابھی جان سکے ہیں جو آج سے پانچ صدی قبل 1574میں بلوچستان کے علاقے خضدار میں چلی تھی۔ اتنی بڑی تحریک کہ اسے کچلنے کے لیے خان قلات کو ایک بہت بڑا لشکر بھیجنا پڑا اور کسانوں کا لیڈر سومار خان مارا گیا۔
مؤرخ کو ابھی یہ بات بھی لکھنی ہے کہ 17ویں صدی میں بلوچ سماج کی زراعت بڑے پیمانے پر شخصی ملکیت میں چلی گئی تھی اور 1666میں عدالتی اخراجات کے نام پر پہلا سرکاری ٹیکس مالی کے نام پر لگایا گیا تھا۔رفتہ رفتہ ایک اور بدنما ٹیکس ششک کے نام سے لگایا گیا تھاجس کی شہرت بین الاقوامی ہے اور دوسرے ٹیکسوں کے نام جو سرکار یا خان کے طرف لگائے جاتے تھے وہ تھے ؛گال، تڑی، سونگ، دڑ، زری شاہ، پنجکاور ششک۔ حتیٰ کہ ایک قبیلے پر موت پہ بھی ٹیکس لگایا گیا،ایک چونی فی میت۔

کسی بھی مؤرخ نے ان کسان بے آرامیوں، جھڑکوں اور بغاوتوں کا تذکرہ نہیں کیا ۔یوں بے شمار کسان مزاحمتیں بنا نوٹس و تذکرہ کے وقت کی دھند میں گم ہو گئیں۔ سندھ میں کھڑا ہوں تو یہ بھی سن لو، یہ بھی بات کرولو اور یہ حیرانی کی بات ہے کمانڈر شاہ عنایت کی دنیا کی سب بڑی جھوک کسان کی جنگ بھی بغیر شاعری کے ہے، بغیر ضرب المثل کے ہے اور بغیر کتاب کے ہے۔

ہندوستان کی جوتجارتی شاہراہ ہوا کرتی تھی، وہ بلوچستان کے قلات میں سے گزرتی تھی۔ ملتان سے ہوتے ہوئے قلات، قلات سے ہوتے ہوئے سومیانی تک۔ اس لیےکہ کراچی کی بندرگاہ اس وقت نہیں تھی۔ سو ہمارے سارے جو سرائے اور شہر بنے ہیں، وہ مشرق مغرب میں بنے ہیں ۔مگر جب انگریز آیا، ریل کی پٹڑی آئی تو تمام کے تمام مشرق مغرب کے شہر اجڑ گئے اور شمال و جنوب کے شہر بن گئے۔ جیکب آباد سے لے کر سبی، سبی سے لےکر مچ، کولپر، کوئٹہ یہ سب نئے شہر ہیں، ابھی بنے ہیں۔ان کانام بھی تاریخ میں کسی نے نہیں سنا۔کہنے کا مقصد ہے کہ سرمایہ کا جو بلوچستان کے اندر ارتقا ہوا، اس کو بھی ہم نے ابھی تک نہیں دیکھا۔

تاریخ کی کتابیں اس بات پر بھی خاموش ہیں کہ انگریز کی طرف سے آل انڈیا کانفرنس کو تباہ کیا گیا اور 1941-42میں بلوچستان مزدور پارٹی بنائی گئی، اس کی طرف سے منعقدہ یوم مئی کے بڑے بڑے جلسوں کی قراردادوں اور جدوجہد کی تفصیل بھی ابھی تک موجود نہیں ہے۔مارچ1948تک بلوچستان ایک آزاد ریاست ہوا کرتی تھی۔1947کی بات جھوٹ ہے بلکہ بلوچستان مارچ 1948تک ایک آزاد ریاست ہوا کرتی تھی اور بلوچستان کے پارلیمنٹ کے دو ایوان ہوا کرتے تھے؛ایوانِ زیریں اور ایوانِ بالا۔اس کی اہمیت اس وجہ سے بھی ہے کہ ڈھاڈر میں 1947دسمبر کو جو ایوانِ زیریں کا سیشن ہوا تھا ،وہاں میر غوث بخش بزنجو کی جو تقریر تھی، وہ ادب کا بھی ایک شاہکار تھا، جو ابھی تک کتابوں میں تفصیل سے نہیں آئی۔

ون یونٹ کے خلاف بلوچ اپنا قلم، تلوار، لاٹھی اور جو کچھ میسر آیا، اس کو اٹھایا اور لڑا۔ ایک پوری نسل پہاڑوں میں جوان ہوئی یا پھر جیلوں میں، قلی کیمپ، عقوبت گاہ ہوں میں ہمارے دانشور، محنت کش و شعرا،ادبا اور کسان تختہ ءمشق بنائے گئے۔ آغا عبدالکریم خان،محمد حسین عنقا، آغانصیر خان، میر غوث بخش بزنجو، گل خان نصیر، عبدالعزیز کس کس کا نام لیا جائے۔ میں بس سزاؤں کے نام آپ کو یہاں گنواتا ہوں ؛ قیدیوں کو دن رات بیدار کرنا، رات بھر لٹکائے رکھنا، بال اکھاڑنا، برف کی سل پر لٹانا، بجلی کے شاک دینا، چارپائی یا کرسی کے پائے کے نیچے ہاتھ دباکر اذیب دینا، زدوکوب کرکے بے ہوش کرنا، اکڑوں کرکے کان پکڑوانا، داڑھی نوچنا، آنکھوں میں مرچیں ڈالنا، پانی کے نلکے کا منہ میں ٹھوسنا پھر تیز پانی چھوڑنا، غلاظت منہ میں ڈالنا، خصیوں کو ریشمی دھاگے سے سختی سے باندھنا……بلوچی زبان اذیت کے اسی ذبح خانے میں بلکتے، تھڑپتے، ہکلاتے مگر غراتے تخلیق ہوئی ہے۔
آج بلوچستان میں بلوچستان عوامی پارٹی کی حکومت ہے ۔اس کا مخفف ہے؛ ’باپ‘۔ یہ باپ الیکشن سے چند گھڑی پہلے بنی۔ (باپ رے باپ کبھی باپ بھی مؤنث ہوئی!) یہ باپ الیکشن سے چند گھڑی پہلے بنی، اس لیے بنی‘ بنا نہیں کہ بہت جلدی میں اسے بنایا گیا تھا۔ باپ پارٹی الیکشن جیتی اور حکمران بھی بنی، باپ کا سربراہ ہمارے وزیراعلیٰ کا نام اس وقت میرے ذہن میں نہیں آرہا، اس کا باپ جام یوسف بھی وزیراعلیٰ اور اس کا باپ جام غلام قادر بھی ہمارا وزیراعلیٰ رہا۔

ہم ایوب خان کے دور کی بات کررہے تھے۔ بالآخر ایوب خان کا نام یحییٰ خان پڑ گیا۔ بلوچستان کو ون یونٹ کے سلاسل سے اجازت ملی۔ سیاسی قیدی باہر آئے۔ الیکشن منعقد ہوئے اور اولین صوبائی حکومت قائم ہوئی۔ مگر آپ کو پتہ ہے نعمتیں، رحمتیں، محبتیں، فاختائیں، بارشیں بہت مختصر دورانیے کی ہوتی ہیں اور نیپ کی حکومت کو 9 مہینے کے اندر اندر مبشر حسن کے گھر کے اندر بننے والی سیاسی پارٹی کے باؤلے پن کا شکار ہونا پڑا۔ اس نے بلوچستان کی حکومت توڑ دی، رہنما گرفتار کرلیے اور اُس زمانے میں اِس زمانے کے باقی طرح کا ایک سیاسی گروہ تشکیل دیا گیا تھا۔ اور آج کی پارٹی باپ کے موجودہ صدر و وزیراعلیٰ کے باپ کے باپ سے ایک ’باپ‘ بنواکر بلوچ تاریخ میں ’باپ سازی‘ متعارف کرائی گئی، جس کے نتیجے میں ہم تاریکی کے اتھاہ گہرے کھڈ میں چلےگئے۔

اسی زمانے میں بلوچ کے ایک حصے افغانستان میں فیوڈلازم کو کچلتا ہوا، ٹرائبلزم کو قوم میں بدلتا ہوا، فیوڈل ازم کی بیڑیاں کاٹتا ہوا، عورتوں کو نجات دلاتا ہوا انقلاب آگیا۔ بلوچی جیسی اقلیتی زبان کو قومی حیثیت ملی۔ بلوچی میں سائنسی علوم کے تراجم ہونے لگے اور دیکھتے دیکھتے بلوچی ایک علاقائی زبان سے قومی زبان بن گئی۔

آج صورت حال یہ ہے کہ جنگی فضا میں زندگی، روشنی، رقص، رنگ، آہنگ سب کے نرخرے پر سامراج نے پاؤں رکھا ہوا ہے۔ بلوچستان کشت کا نام ہے، بلوچستان خون کا نام ہے۔ کوئی وادی، کوئی آبادی ایسی نہیں جہاں امن کی دیوی کا ایک ہفتے تک کا قیام ہو۔ فاشزم نے ہمارے مڈل کلاس کو ہڈی کے گودوں تک کرپٹ، خوف زدہ اور موقع پرست بنا لیا ہے۔ خوف کی ایسی فضا ہے جو چادر اور چاردیواری کے آر پار کھود کر دلوں میں جاگھسی ہے اور آج کا دانش ور متعصب کرکے اس طرح کا بنا دیا گیا ہے کہ یہ مڈل کلاس نہ تو تیار ہے، نہ یہ غیر متذلل ہے اور نہ یہ ذمہ دار ہے۔

مگر یہ اکیسویں صدی بھی ہے۔ سائنس و ٹیکنالوجی کی لہریں بحر بلوچ کے ساحلوں تک آن موجود ہوئی ہیں۔ سائنسی خیالات سرحدوں پر شتر قدسرنگیں ڈال رہے ہیں۔ آج نہ تو درختوں کے پتے بلوچوں آب خورے ہیں اور نہ خاک در جھاڑیاں ہماری نشست گاہیں ہیں۔ خانہ بدوشی کا تناسب گھٹتا جارہا ہے۔ شکرو یا شکر خوروں کو وزارتیں یا مشاورتیں مل رہی ہے اور سفارتیں میسر ہیں۔، بڑھ بڑھ کر ہاتھ بڑھانے والوں کو پجارو اور جھنڈے دستیاب ہوگئے ہیں۔ بلوچ عوام تعلیم، ملازمت، تجارت اور معیشت کی طرف متوجہ ہورہے ہیں۔ انٹیجنشیا اور سپشلسٹوں کی تعداد اب صفر نہیں ہے ۔عوام کی طرف داری کرنے والے دانش ور، فیوڈل نظام کے خاتمے کی باریک اور خوف زدہ آوازیں اب حاوی اور بلند آہنگ انداز میں بلند کررہے ہیں۔شفاف اور مکمل جمہوریت حسرت کی بجائے مطالبے بن گئے ہیں ۔مگر ایسے وفاق میں جہاں دفاع اور خارجہ امور کے علاوہ باقی سب اختیارات بلوچ کے پاس ہوں، گوادر کے اختیار کے بشمول۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔