کتابوں پہ پابندی : بلوچستان کا تناظر – عابد میر 

772

کتابوں پہ پابندی: بلوچستان کا تناظر

تحریر : عابد میر 

دی بلوچستان پوسٹ

کوئی دس بارہ برس قبل اُدھر بلوچستان میں ایک اخبار ہوتا تھا روزنامہ آساپ۔ سرکار کی مداخلت سے یہ دو ہزار نو میں بند ہو گیا۔ اخبار نے فیصلہ کیا کہ ایک دَہائی کی اشاعت کے دوران بلوچستان کے مسائل پہ ادارتی صفحات میں جو مضامین اور تبصرے شائع ہوئے، ان کا انتخاب کتابی صورت میں شائع کیا جائے۔ میں اُن دنوں ادارتی صفحے کا ایڈیٹر تھا۔ یہ کام بھی میرے ذمے لگا۔ دس برسوں کا انتخاب لگ بھگ ساٹھ کتب کی صورت میں مرتب ہوا۔ ہر کتاب دو سو صفحات پہ مبنی ہوتی۔ اس میں سے کوئی تیس بتیس ہی شائع ہو سکیں۔ اس دوران اخبار اور پھر یہ ادارہ ہی فوت ہو گیا۔

اچھا، ہوا یہ کہ ابتدائی آٹھ دس کتابیں مرتب ہوئیں تو ہمارے ایڈیٹر ان چیف (معروف بلوچ دانشور و سابق بیوروکریٹ جان محمد دشتی صاحب) جو خود بھی ایک عرصہ انگلش میں لکھتے رہے، کو شوق ہوا کہ ان میں سے منتخب مضامین انگریزی میں بھی ترجمہ ہوں تاکہ بلوچ مقدمہ بیرونِ ملک انگریزی قاری تک بھی پہنچے۔ یہ کام اُس زمانے میں لندن سے ہیلتھ میں پی ایچ ڈی کر کے لوٹنے والے ان کے بھائی ڈاکٹر نصیر دشتی کو تفویض ہوا۔ انھوں نے انھی کتابوں میں سے بیس پچیس مضامین منتخب کر کے ان کا انگریزی ترجمہ کیا، جو دو کتابوں کی صورت میں شائع ہوا۔

یہ دو ہزار آٹھ کا زمانہ تھا۔ صوبے میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی۔ کتابیں شائع ہونے کے چند ماہ بعد ہی حکومت نے ان پر پابندی عائد کر دی۔ ہمارے ایک ہم عصر صحافی دوست ملک سراج اکبر نے ’’آج کل’’ نامی اخبار کے لیے ڈاکٹر نصیر دشتی کا انٹرویو کیا۔ ڈاکٹر نصیر نے ایک سوال پر ہنستے ہوئے کہا، یہ عجب تماشا ہے کہ ان کتابوں کے مضامین برسوں پہلے ایک اخبار میں شائع ہو چکے ہیں۔ یہی مضامین اردو میں کتابی صورت میں کب سے مارکیٹ میں موجود ہیں۔ انھی کتابوں کے انگریزی تراجم کو بین کرنے سے پتہ چلتا ہے سرکار یا تو پڑھتی نہیں یا بلوچ مقدمے کی بیرونی قاری تک رسائی سے ڈرتی ہے۔

بعدازاں اسی پابندی کو جواز بنا کر ڈاکٹر نصیر دشتی سیاسی پناہ کی درخواست دے کر لندن منتقل ہو گئے۔

اب جو معروف ناول نگار محمد حنیف صاحب کے گیارہ برس قبل شائع ہوئے مشہورِ زمانہ انگریزی ناول کے اردو ترجمے پہ پابندی کا سنا تو یہ واقعہ یاد آ گیا۔ ساتھ ہی حیرت ہوئی کہ پاکستان میں انگریزی ناول کا اردو ترجمہ بین ہو جاتا ہے، حالاں کہ اسی مارکیٹ میں اصل انگریزی ناول کی کاپیاں اب بھی باآسانی دستیاب ہیں۔ دوسری طرف بلوچستان میں اردو تحریروں کا انگریزی ترجمہ بین ہو جاتا ہے۔ حالاں کہ وہی اردو کتابیں آج بھی موجود ہیں۔

اچھا اس سے کیا ثابت ہوا؟

پس اس سے ثابت ہوا کہ طاقت وروں کا رویہ بلوچستان بارے اس متعلق بھی مختلف ہے۔ پاکستان میں متبادل بیانیے اور ناقدانہ نکتہ نظر کو وہ عمومی قاری کی رسائی سے دور رکھنا چاہتے ہیں، بعینہٰ بلوچستان میں متبادل بیانیہ اور ناقدانہ نکتہ نظر کو وہ بیرونِ ملک قاری کی رسائی سے محروم رکھنا چاہتے ہیں۔

کیوں؟

کیوں کہ پاکستان میں ایک تو اکثریت مطالعہ پاکستان کے زیراثر بلوچستان کے مسائل کو مقتدرہ کی نظر سے ہی دیکھتی ہے۔ (یاد کیجیے، اسی محمد حنیف نے بلوچستان کے لاپتہ افراد پہ پہلا ڈاکیومنٹ لکھا تھا، جسے اردو میں ’’غائبستان میں بلوچ‘‘ کے عنوان سے وسعت اللہ خان نے ترجمہ کیا، اسے بھی بین ہونے کے قابل نہیں سمجھا گیا)۔ پاکستان کا مین اسٹریم میڈیا بھی بلوچستان بارے آل ریڈی مقتدرہ کا بیانیہ ہی بیان کرتا ہے۔

بلوچستان کے اندر اگر کوئی اردو یا بلوچی میں چیختا ہے، چلاتا ہے، روتا ہے تو ایک تو یہ جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا والی صورت حال ہی رہتی ہے۔ دوسرا کوئی زیادہ چیخے چلائے، اچھلے بھی تو اس کی زباں بندی کچھ ایسا مشکل نہیں۔ بس یہ آواز ملکی حدود سے باہر نہیں جانی چاہیے۔

اس لیے آپ دیکھیں گے کہ بلوچستان سے متعلق انگریزی میں متبادل بیانیہ لکھنے والے یا تو ملک سے باہر ہوں گے، یا باہر چلے جائیں گے۔ ملک میں رہے تو لاپتہ ہوں گے، بچ گئے تو غدار اور ایجنٹ کہہ کر حاشیے پہ ڈال دیے جائیں گے۔

اور بے شک اس میں ’’عقل مندوں‘‘ کے لیے نشانیاں ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔