امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹیلرسن نے کہا ہے کہ ایران کے خلاف عاید کردہ پابندیوں کا ہدف اس ملک کا ’’ تخریبی کردار‘‘ ہے اور ان کا مقصد ایرانی عوام کو اپنی حکومت پر کنٹرول کے لیے مدد دینا ہے۔
ریکس ٹیلرسن نے بدھ کو نئی دہلی میں بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج سے بات چیت کے بعد نیوز کانفرنس میں کہا کہ امریکا بھارت یا کسی اور اتحادی ملک کی ایران کے ساتھ قانونی کاروباری سرگرمیوں پر کوئی روک نہیں لگائے گا۔
ٹیلرسن نے کہا کہ ’’ امریکا اپنے اقدامات کے ذریعے ایران کی مشرق وسطیٰ میں تخریبی سرگرمیوں اور بیلسٹک میزائلوں کی تیاری کے پروگرام کو محدود کرنا چاہتا ہے۔اس کے علاوہ وہ ایران سے دہشت گرد تنظیموں کو اسلحے کی برآمد اور شام اور یمن میں جاری تنازعات میں مداخلت کو بھی ختم کرانا چاہتا ہے‘‘۔
امریکی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ’’ ہماری جنگ ایرانی عوام سے نہیں بلکہ ہمارے اختلافات انقلابی رجیم کے ساتھ ہیں۔ہم ایرانی رجیم اور بالخصوص پاسداران انقلاب کے خلاف پابندیاں عاید کرنے کے لیے اقدامات کررہے ہیں۔ہمارا مقصد ان کی مالیاتی صلاحیت اور ان کے تخریبی کردار پر مبنی سرگرمیوں کو روک لگانا ہے‘‘۔
انھوں نے واضح کیا ہے کہ ’’امریکا ایران کے اندر اعتدال پسند آوازوں کی حمایت کرنا چاہتا ہے تاکہ بالآخر وہاں حکومت میں تبدیلی لائی جاسکے۔ ایرانی عوام پہلے ہی رجیم کے جبر واستبداد کا سامنا کررہے ہیں اور ہم انھیں کوئی نقصان نہیں پہنچانا چاہتے ہیں کیونکہ ہماری لڑائی ان کے ساتھ نہیں ہے‘‘۔
ٹیلرسن سے جب بھارت کی ایران کی بندرگاہ چا ہ بہار میں کروڑوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے کہا کہ ’’امریکا کی ایران کے خلاف عاید کردہ پابندیوں اور بھارت کی چاہ بہار ڈیل میں کوئی تضاد نہیں ہے اور امریکا بھارت یا یورپ کی جانب سے ایران کے ساتھ جائز اور قانونی کاروباری سرگرمیوں میں کوئی مداخلت نہیں کرنا چاہتا ہے‘‘۔