موتشن ۔ نود بندگ بلوچ

937

“موتشن”

نود بندگ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

آنکھیں بند، لیکن سب نظر آرہا ہے۔ اندھیرا، ایسا اندھیرا جس کی سیاہی سترنگی، ہر پرت کی سیاہی اور گہری۔ ایک لمبی تاریک سرنگ، اس سرنگ کے اندر اپنے سرنگ۔ ایک ادھ بھلا خواب، اس خواب میں ہزاروں نیم شناسہ چہرے، جانے کون ہیں؟ ایک گھومتا ہوا پہیہ، پہاڑ سے لڑھکتا جاتا کنکر، چکر کاٹتا گرداب نا انجام نا آغاز۔ ہزاروں تصویروں کے غیر مکمل کترے، ذہن میں بجتا کسی نغمے کا نا یاد آنے والا دہن، بہت سے گردش کرتے نام، کسی نام پر چہرہ نہیں، کس کے ہیں؟ جیسے خواب میں نظر آتا وہ دروازہ جو کھل نہیں رہا ہو، وہ چیخ جو نکل نہیں رہی ہو، وہ آنسو جو بہہ نہیں رہے ہوں۔ ایک ایسا غار جس کی تہہ تک کبھی سورج کی روشنی نہیں پہنچی، وہ پیاسی زمین جہاں بارش کے ایک قطرے کی قیمت موتیوں سے مہنگی ہے۔ زندہ ہو سانس لینے کا مشق بھول گئے؛ کہہ رہے ہو، بولنا بھول گئے، کس لیئے؟ چلو! آخری کنارے، جہاں گیتی ختم ہوجاتی ہے۔ جب اختتام تک پہنچتے ہو تو خزاں کے درخت پر لٹکا آخری سبز پتہ تمہیں یاد دلاتا ہے، تم یہاں کیوں آئے ہو۔

” موتشن، چِینے یشتے تٗو؟ کُم تے نیم یشتی؟ نُو وا آپروپیاژتی مینے کُوم وا کنوژک نو میلے؟ چے لِیمبا واربِسک؟ دے چی است فاملیار؟” (“موتشن، کون ہو تم؟ تمہارا نام کیا ہے؟ رکو! میرے قریب نہیں آؤ، میں تمہارا نام پہلے سے کیسے جانتا ہوں؟ میں یہ کونسی بولی بول رہا ہوں؟ تمہارا چہرہ شناسہ کیوں ہے؟)
“چپ! تمہیں کچھ جاننے کی ضرورت نہیں، ہمیں مزید کسی بولی کی ضرورت نہیں، کچھ بولنے کی ضرورت نہیں، ازل خاموشی کی زبان بولتی ہے، اسکی زبان سمجھو اور بولو، چپ رہو اور کہو”
میں چپ رہا اور کہا “میں نے دیکھ لی وہ سیما، جو زیست و مرگ کو بانٹتی ہے، وہ محض سراب ہے۔ میں نے سلسلہ دیکھا، روانی دیکھی، کوئی کٹتی لکیر نہیں۔ موتشن! میں اسلم کو واپس لیجانے آیا ہوں، مجھے اسکے پاس لے چلو”
“جو چاہو بلا قیمت ہر وقت میسر ہوتا ہے، بس نوعیت بدل جاتی ہے۔ سانس روکو!” میں نے سانس روک لیا۔

“اب سانس لو” میں نے سانس لے لیا۔ ہسپتال کا ایک کمرہ، خون کی پٹیاں، دوڑتے ڈاکٹر، اسپرٹ کی تیز بو، ایک بیڈ، اس پر لیٹا زخموں سے چور ایک شخص، خون سے لت پت اور نِیم بیہوش، میں قریب گیا۔
” نہیں، نہیں موتشن نہیں، یہ حالتِ نزاع ہے۔ تم مجھے یہاں کیوں لے آئے؟ کیا تمہیں اتنا پتہ نہیں موت سے منسوب تکلیف کا تصور جسے مُردوں پر منطبق کیا گیا ہے، وہ درحقیقت زندوں کیلئے ہے، پھر بھی تم تکلیف دینے یہاں لے آئے۔”
“یہیں سے واپس کرلو، جاؤ! روکو اسلم کو، جیسا میں کہتا ہوں، ویسا کرو، بچ جائے گا، یہیں رک جائے گا”
” نہیں موتشن نہیں، میں وقت بدلنے نہیں آیا ہوں، میں متسلسل، متبادل وقت کیلئے آیا ہوں۔ ورنہ محالِ مجسم سے جنم لینے والا وقت، محض ایک شبیہہ ہوگا۔”
“شاید! بہرصورت، نوعیت بدل جائیگی، لیکن فرق نہیں کرپاؤ گے”

“مجھے اسلم کے موجود لے چلو، لیکن ایک لمحہ ٹہرو، ذرا مجھے دیکھنے دو، مجھے لگا لمحہ آخر اسلم کے چہرے پر تکلیف ہوگی، لیکن چہرے پر تکلیف نہیں۔ دکھ؟ دکھ بھی نہیں۔ اسے کیوں غصہ نہیں آرہا؟ ڈر؟ وہ بھی چہرے پر نہیں، لیکن اسکے چہرے پر صرف انتظار کیوں نظر آرہا ہے، موتشن؟ اسکا کیا مطلب؟
” مطلب تو وہی جانے جس نے زیست و مرگ کی سیما بغیر ملال کے طے کی، میں جواب نہیں ذریعہ ہوں”

اب چہرے سے انتظار بھی اترگیا، اب یہاں اسلم نہیں، چہرے پر سفید کپڑا ڈال دیا گیا “موتشن، یہ آواز کیسی ہے؟ خدا کیلئے بند کردو اس آواز کو، مجھے رونا آرہاہے، میرے روح کو یہ آواز چیر رہا ہے، میرے جسم کا ہر انگ نوحہ کررہا ہے، میرے جسم کا ہر ایک بال آبدیدہ ہے، خدا کیلئے بند کردو، اس آواز کو”
” یہ میں نہیں، تم ہو۔ یہ آواز نہیں نغمہ ہے، ہر اس سسکی کا نغمہ جو حلق میں اٹکی رہ گئی، ہر اس چیخ کا جو سینے میں دب گئی، ہر اس آنسو کا جو آنکھ سے ٹپکا نہیں۔ یہ نغمہ ءِ رنج ہے جو شکستہ دل سے آتی ہے، میرے دوست! تمہارا دل شکست کھاگیا”
نغمہ ءِ رنج بجتا رہا، میں بلک بلک کر روتا رہا، ماں کے پیٹ میں پہلی بار روکے آنسو سے لیکر اسلم کے قبر پر آخری مٹھی مٹی تک سب آنسو بہا لیئے، تب خاموشی چھاگئی۔

” کھونے کے درد سے پیدا ربط اتنا مضبوط ہوتا ہے کہ پُل بن کر دو جہانوں تک کو جوڑ سکتا ہے، موتشن! اب لے چلو مجھے اسلم کے پاس۔”
“سفر طویل ہے، سانس نہیں لینا لیکن زندہ رہنا، آنکھیں نہیں کھولنا لیکن سب کچھ دیکھنا، بولنا کچھ بھی نہیں لیکن سب کچھ کہنا، سننا کچھ نہیں لیکن جاننا، چلنا نہیں لیکن جانا، چھونا نہیں لیکن محسوس کرنا۔”

پھر میں دس سالوں تک بغیر سانس لیئے چلتا رہا، چلتے چلتے میں نے سب کچھ دیکھا، میں نے دس ہزار درختوں کو ایک کلہاڑی کو سجدہ کرتے دیکھا، میں نے ایک چھ سالہ ننگے بچے کو تلوار سے اپنی ماں کا گردن اڑاتے دیکھا، میں نے سرخ کفن میں ایک لاش کو زندوں کے گھر پر بیٹھ کر بلبلاتے دیکھا، میں نے ایک مسخرے کو سب کو رلاتے دیکھا، میں نے ایک قاتل کو سولی پر جلاد کو چڑھاتے دیکھا، میں نے بوہیمیا کے ایک جاہل کو عالموں کو پڑھاتے دیکھا، میں نے ایک فاختے کو موت کو اپنے کندھے پر سُلاتے دیکھا، میں نے شیطان کو شراب سے جہنم کی آگ بجھاتے دیکھا، میں نے ایک امام کو جنت میں چنگاری بھڑکاتے دیکھا، پھر میں نے خدا کو بندوں کے سامنے گڑگڑاتے دیکھا۔

“موتشن، کیا یہ جہنم ہے؟”
” نہیں تم جہنم اور جنت بہت پیچھے، وہیں چھوڑ آئے، بس اب ہم پہنچ گئے”
“کہاں”
“جہاں وقت سانس نہیں لیتی”

” یہ کہاں لے آئے مجھے، یہ مظاہر کیوں اجنبی معلوم نہیں ہوتے؟ ہوا کہاں سے میرے دھرتی کے گواڑخوں کی بھینی خوشبو لارہی ہے؟ یہ پہاڑ مجھے کیوں پہچان رہے ہیں؟ یہ جھرنا کیوں مجھے دیکھ کر مسکرا رہا ہے؟ ان درختوں کے سائے کی ٹھنڈک کیوں مانوس سی ہے؟ یہ کنکریاں میرے پیروں میں چھب کیوں نہیں رہے؟ یہ میرے دھرتی جیسا کیوں ہے؟”
” یہ مسکن اپنے مکین سا سجتا ہے، شاید یہی اسلم کا تصورِ جنت ہے”

نغمہ ءِ رنج کی آواز ایک بار پھر گونجنے لگی، اسکی ہر راگ میرے دل کی نسیں کھینچنے لگا، اسکی ہر لَے میرے روح پر ہتھوڑے برسانے لگا اور ہر تال میرے جذبات کی گہرائیوں سے آنسوؤں کو نچوڑ کر میری آنکھوں سے بہانے لگا۔ اسکا ایک ہی مطلب ہے، میں پیچھے مڑا تو وہ مسکراتا چہرہ میرے سامنے تھا۔
” تمہیں پتہ ہے، بارشوں میں جب بند ٹوٹ جائے تو دامن میں آباد گھروں کا کیا ہوتا ہے؟ تمہیں پتہ ہے، جب اندھیرا چھاجائے اور ماں نا لوٹے تو گھونسلے میں پڑے پرندوں کے بچوں کا کیا ہوتا ہے؟ تمہیں اندازہ ہے، اس قوم کا کیا ہوتا ہے جس کے اکیلیس کے ایڑی سے تِیر پار ہوجائے؟ تمہیں پتہ ہے طوفان میں گھِرے ان ناوؤں کا کیا ہوتا ہے، جن کے نا خدا نا ہوں؟ کیا تم جانتے ہو، ان بچوں کے ساتھ کیا ہوتا ہے جن کے والد انکے بالغ ہونے سے پہلے گذر جاتے ہیں؟ تمہیں پتہ ہے، اس کتاب کا کیا ہوتا ہے جسے مورخ ادھورا چھوڑ جاتا ہے؟ تمہیں پتہ ہے، اس زمین کا کیا ہوتا ہے، جسکا اتلس آسمان نا روکے؟ ہاں! تمہیں سب پتہ ہے، لیکن پھر بھی تم چھوڑ کر چلے گئے۔ آخر کیوں؟ تمہارے پاس مرنے کا اختیار نہیں، تم نے تجاوز کرلیا۔ او استاد! او سنگت! او ابا! تم سب کے کندھوں پر چلتن، دل پر شاشان ڈال کر یہاں چلے آئے۔ میں تمہیں واپس لینے آیا ہوں۔ آو! میرے ساتھ واپس چلو۔”

” تم نے کیسے یہ سمجھ لیا کہ میں نہیں ہوں سنگت؟ تم نے کیسے جسم کو وجود سمجھ لیا؟ تم مادی محسوسیت کو ہونا کیسے سمجھ بیٹھے؟ ظاھر تو ہونے کا محض ایک ماخوذ مظہر ہے، صرف حقیقت کا سراب دینے کا بہانہ اور تم اسی کو کُل سمجھ کر نا ہونا بھی اخذ کرچکے؟ میرا ہونا تمہارا لیئے موضوعی ہے، اگر میرا جسمانی وجود ابتک ہوتا، لیکن میں تمہارے موضوع سے خارج رہتا، کبھی تم لوگوں کے زندگی کا حصہ نا بنتا پھر؟ شاید میں کسی بس کا ڈرائیور یا دکاندار ہوتا پھر کیا میرا ہونا تمہارے لیئے ہونا ہوتا؟ اب میرا جسمانی وجود تمہارے موضوع میں نہیں، لیکن میرے اثرات، میرا نظیر، سوچ، سوچ سے پھوٹتا مسلسل تعامل تمہارے بیچ ہے، جو اتنا ہی اثر انگیز ہے، جتنا ایک زندہ جسم میں انسان ہوتا ہے، بلکہ سوچ سے نکلنے والے عمل کی مسلسل تعامل کی شدت گہری ہو تو وہ سو زندہ انسانوں کے ہونے سے زیادہ مضبوط ہوتا ہے اور یہی تو موجودگی ہے، پھر کیسے کہہ سکتے ہو کہ میں نہیں ہوں؟ اس سے زیادہ کسی کے ہونے کی خواہش رکھنا، محض ایک مادی محسوسیت کی خواہش ہے، ایک ایسے جسم کی خواہش جو تمہارا بوجھ تمہارے لیئے اٹھا سکے، اس سوچ سے وابسطہ عمل کا بوجھ اٹھاسکے، پھر یہ احساسِ زیاں محبت تو نہیں ہوا؟ بلکہ یہ تو خوف اور کاہلی کی دلالت کررہا ہے۔ جب تک تم میں سے ایک بھی ان پگڈنڈیوں پر چلتا رہا، جن پر میں چلا، تو میں ہوں سنگت اور جب وہ پگڈنڈیاں ویران ہوجائیں اور پتھریلی پڑجائیں، تو پھر میں بھی فطرت کے عظیم خاکے میں انقطاع سے مشروط ہوکر تحلیل ہوجاؤںگا۔”
“او میرے استاد! اس سوچ کو مزید پختہ ہونا ہے، تاکہ اسکی پختگی اور مسلسل تعامل ہمیں منزل تک سر کردے، اسکیلئے تمہاری ضرورت ہے، زیست و مرگ میں فرق نہیں تو ہم تمہارے سائے سے کیوں محروم رہیں؟ تمہارے فیصلوں کی لڑی نے تمہیں ہم تک پہنچایا تھا، تم اس تسلسل کو منطقی انجام تک پہنچنے سے پہلے کیوں روکو؟”

وہ موتشن کی طرف دیکھنے لگا، آپس میں کچھ کہہ رہے تھے لیکن میری سمجھ کی حدوں سے باہر، پھر میری طرف دیکھنے لگا “سنگت! تم وقت کے قیدی ہو، تم فرار ضرور ہوئے ہو لیکن آزاد نہیں، تمہیں سمجھ نہیں آسکتا۔ تم متبادل حقائق کے لامتناہی سلسلے کا شعور نہیں رکھ سکتے۔ ہر کوئی جہاں ہے، جو ہے، اور کچھ نہیں بس اپنا فیصلہ ہے، لیکن ایک بھی فیصلہ مختلف ہوتا تو انجام و موجود بھی مختلف، ہر دہرائے کے ہر فیصلے سے متبادل حقیقت و متوازی زمان و مکاں جنم لیتے ہیں، متوازی کائناتوں کا ایک لامتناہی سلسلہ لیکن تم ایک وقت میں صرف ایک زمان و مکاں کا شعور رکھ سکتے ہو، اور وقت کے قید سے آزاد تمام نتائج کا شعور رکھتے ہیں، اسلیئے کوئی واپس نہیں آتا، کیونکہ وہ کہیں جاتا ہی نہیں۔ اگر تمہارا ایک فیصلہ تھوڑا مختلف ہوتا تو نتائج و انجام کیا ہوتے، تمہیں معلوم نہیں۔ تمہارے لیئے سب سے اہم تمہارا معروض و موضوع ہے، اسلیئے اب اسکے ہر کامیابی و ناکامی اور ہر بوجھ و حاصل کے ذمہ دار تم خود ہو، اس سے خارج شخص نہیں، اب تم واپس جاؤ اور اپنے حقیقت کو سنبھالو، اور کوشش کرو کہ چہرے پر ملال نہیں انتظار کے ساتھ وہاں سے نکلو۔”
“استاد! تمہارے چہرے پر وہ انتظار کس چیز کا تھا؟”
“تکمیل کا سنگت، جو بغیر ملال کے دہلیز پر قدم رکھنے پر دِکھتی ہے، پھر اسکے علاوہ کچھ اہم نہیں رہتا۔”

اچانک میرے پورے جسم پر کپکپاہٹ طاری ہوگئی، میرے جسم سے پسینہ چھوٹنا شروع ہوگیا، میرا دل سینے میں ہتھوڑے مارنے لگا۔ “سنگت! تم کو اب واپس جانا پڑے گا، زیادہ دیر نہیں رکو، ورنہ نوعیت بدل جائیگی۔ تم وقت کے قیدی ہو، زیادہ دیر مفرور نہیں رہ سکتے۔ موتشن اسے واپس لے چلو۔”
“لیکن استاد! میں واپس جاکر سب کو کیا کہوں گا، دوستوں کو کیا کہوں گا، تمہارے بچوں کو کہوں گا، امید رکھنے والوں کو کہوں گا کہ میں ناکام لوٹا، میں تمہیں واپس نہیں لاسکا؟”
“تم انہیں بس اتنا کہنا کہ بغیر ملال کے دہلیز پر قدم رکھنا، میں اور جس جس کو تم دل میں زندہ رکھو گے یہاں سب تمہارا انتظار کررہے ہونگے۔”

میرا اب سر چکرا رہا تھا، مزید کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا، استاد موتشن کے قریب گیا، کچھ بول رہا تھا، پھر میری طرف دیکھ کر بولا “اب جاؤ سنگت، جاؤ، اسی وقت جاؤ، اٹھو، آنکھیں کھولو”

میں نے آنکھیں کھولیں، میرے سامنے ایک بڑھیا آنکھیں بند کیئے بیٹھی ہوئی تھی، جسکے چہرے کی جھریوں سے لگتا تھا کہ اس نے دنیا کا ہر کونا اور ہر زمانہ دیکھا ہوا ہے۔ میرے دونوں ہاتھ اسکے ہاتھوں کے مٹھیوں میں قید تھے۔ وہ زیر لب کوئی گِیت گنگنارہی تھی۔ اس کے زانوں پر سر رکھے ایک اپاہج بچہ ٹکٹکی باندھے مجھے دیکھ رہا تھا، جو ہل جل نہیں سکتا تھا، لگتا ہے کمر سے مفلوج ہے، اسکے منہ سے رال ٹپک رہا تھا، شاید وہ اپنا منہ تک خود صاف نہیں کرسکتا لیکن وہ مجھے گھورنا بند نہیں کر رہا تھا۔ دسمبر کا مہینہ تھا لیکن میرا جسم پسینے سے شرابور تھا، میرا ماتھا تپ رہا تھا، میرا دل اتنے زور سے دھڑک رہا تھا کہ میری دھڑکنوں کی آواز سن کر بڑھیا نے اپنی آنکھیں کھولیں اور مسکرا کر بولی “آگئے، مجھے ایک لمحے کیلئے تو ایسا لگا کہ میں نے تمہیں وہیں کھو دیا۔ “

پھر مجھے سب یاد آنے لگا، میں آرگس کے کھنڈرات کے گلیوں میں گھوم رہا تھا، تو ایک چوراہے پر بیٹھی اس بڑھیا نے مجھے آواز لگائی، وہ شاید وہاں بھیک مانگ رہی تھی، یا دوسرے نوٹنکیوں کی طرح قسمت کا حال بتانے والی تھی، اسکے زانوں پر سر رکھے ہوئے ایک اپاہج بچہ مجھے گھور رہا تھا “اگر تم مجھے اپنی انگوٹی دے دو، تو میں تمہیں ان سے ملادوں گی، جن سے ملنا ممکنات کے دنیا کے بساط سے باہر ہے۔”
” کیا مطلب ہے تمہارا، یعنی جو مرگئے ہیں؟ یہ ناممکن ہے؟”
“اگر میں ملا نہیں سکی، تو تم انگوٹھی رکھ لینا، سودا منظور ہے؟”

مجھے وہ پاگل لگی، لیکن میں فارغ تھا اور دل میں سوال تھے، تو موقع دینے میں کوئی حرج محسوس نہیں ہوا اور انگوٹھی بھی معمولی سی تھی “لیکن میں تمہیں بتادوں یہ انگوٹھی نا سونے کی ہے نا چاندی کی، یہ تو بس کسی بکھاری نے ایسے ہی میرے ہاتھوں میں پہنا دیا تھا”
” مجھے انگوٹھی نہیں، اسکا پتھر چاہیئے، یہ درنجف ہے، جو شہیدوں کے قبر پر پڑے بارش کے قطروں سے بنتا ہے”
میں اسکے سامنے بیٹھ گیا، ” اپنے دونوں ہاتھ بڑھاؤ اور آنکھیں بند کردو” پھر اس نے میرے دونوں ہاتھ تھام کر کچھ گنگنانا شروع کیا۔
“یاد رکھنا تمہیں وہاں صرف دو منٹ رکنا ہے”

سب یاد آنے کے بعد میں نے جلدی سے گھڑی میں وقت دیکھا، تو مجھے وہاں صرف ایک منٹ اور چالیس سیکنڈ ہوئے تھے، خوف و دہشت سے میرا پورا جسم لرز رہا تھا، میں نے جلدی سے انگوٹھی ہاتھ سے اتار کر اسکی جانب پھینک کر بولا “تم جھوٹی ہو، تم ساحرہ، تم جادوگرنی ہو۔” وہ مسکرائے جارہی تھی۔ معذور بچہ کچھ بولنے کی کوشش کررہا تھا، اسکے منہ سے مزید رال ٹپکنا شروع ہوگیا، مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا بول رہا ہے لیکن وہ میری طرف دیکھ کر بول رہا تھا۔
“یہ بچہ کیا بولنا چاہ رہا ہے، اور یہ کس زبان میں بول رہا ہے، مجھے ایسا لگتا ہے کہ میں نے یہ زبان پہلے کہیں سنا ہے۔”
” ہم جپسی ہیں بیٹا، یہ ہماری زبان رمانی جپسی بول رہا ہے، اور وہ بول رہا ہے کہ “بدل گئی” ”
مجھے اس مانوسیت نے چونکا دیا “یہ بچہ کون ہے، اسکا نام کیا ہے اور کیا بدل گئی؟”
بڑھیا مسکراتے ہوئے بولی “یہ میرا نواسہ ہے، بچپن سے ہی جسمانی اور ذہنی طور پر معذور ہے، کسی نے اسے کوئی نام تک نہیں دیا، ماں باپ نے بھی پھینک دیا تھا تو میں نے اٹھا لیا، لیکن جب سے یہ میرا زندگی میں آیا ہے، تب سے خدا میرے دسترخوان پر بیٹھتا ہے۔ اسکا کوئی نام نہیں، تو بس میں اسے بیٹا بیٹا بلاتی ہوں، بیٹے کو ہمارے جپسی زبان میں موتشن کہتے ہیں، تو یہ میرا موتشن ہے”
” کیا؟ یہ موتشن ہے، خدا کیلئے اس سے پوچھو کہ کیا بدل گیا؟
وہ معذور بچہ میری طرف مسلسل دیکھ رہا تھا، پھر بمشکل ٹوٹے الفاظ میں بڑھیا سے کچھ بولا، بڑھیا میری طرف دیکھ کر بولی ” کہہ رہا ہے کہ اس نے مجھے جاتے جاتے بولا تھا کہ نوعیت بدل گئی۔”
“ایسا نہیں ہوسکتا، کس کی نوعیت بدل گئی؟ میری یا اسلم کی؟ یا سب کی؟ خدا کیلئے اس سے پوچھو۔”
” یہ تھک گیا ہے، اب سوگیا ہے، جب یہ سوتا ہے پھر پتہ نہیں کتنے دن بعد اٹھتا ہے، اب اپناجواب خود ڈھونڈو” بڑھیا خوشی خوشی انگوٹھی جیب میں ڈالتے ہوئے اپنا سامان باندھنے لگی۔
“خدارا مجھے بتاؤ، میں تم سے بعد میں کب اور کہاں مل سکتا ہوں؟”
“ہمارا کچھ پتہ ٹھکانہ نہیں ہوتا بیٹا، کبھی یہاں، کبھی کہاں، لیکن ہمارے پیچھے وقت برباد نہیں کرو، یہ سب کچھ ایک ذریعہ تھا، جواب نہیں، جواب خود ڈھونڈو۔”


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔