چھبیس نومبر بی ایس او کا دن – ڈاکٹر عائشہ بلوچ

395

چھبیس نومبر بی ایس او کا دن

تحریر: ڈاکٹر عائشہ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بی ایس او شروع دن سے بلوچوں کی سب سے طاقتور سیاسی تنظیم بن کر ابھری۔ اس طلباء تنظیم نے بلوچ قوم کو ایک نئی راہ دکھائی۔ طالبعلموں میں اتنی سیاسی پختگی لانے والے ادارے نے بلوچ قوم کے دلوں میں گھر کرلیا۔ ریاست نے اپنے گماشتوں اور نام نہاد پارلیمنٹرین کے سہارے اسے بہت سے دھڑوں میں تقسیم کیا، مگر آج بھی اس کا ایک دھڑا مکمل طور پر قومی آزادی کو اپنا موقف سمجھتی ہے اور وہ اس کےلیے جدوجہد کر رہی ہے، میں بذات خود، بلوچ طالب علموں کی نمائندہ تنظیم اسے ہی سمجھوں گی۔ جب بی ایس او بنا اس تنظیم کے کارکناں نے ہربلوچ کو آگاہی دی۔ بہت سے طالب علموں میں شعور لایا گیا۔

میں خود بنیادی طور پر ایک گاؤں سے تعلق رکھتی تھی، وہاں نا تعلیمی سسٹم تھا نہ ہی کسی کو معلوم تھا کہ تعلیم کیاہے، اگر ہمارے گاؤں کے کچھ طالب علموں نے علم حاصل کیا تھا تو بی ایس او کے بدولت۔ آج اگر دشمن بی ایس او کے نام سے ڈرتا ہے تو دشمن کو پتہ ہے کہ یہی بی ایس او کی وجہ سے بلوچوں نے تعلیم حاصل کیا اور بلوچوں کو معلوم ہوا اپنی سرزمین کے بارے میں اور میں سلام کرتی ہوں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد {BSO Azad} کے ان شھدا اور لاپتہ بھائیوں کو جنہوں نے اپنا جان بلوچ قوم کے ننگ و ناموس اور مسقبل کی روشنی کیلئے قربان کیا۔ جیسا کہ سابقہ جنرل سکرٹری شھید رضا جہانگیر عرفِ شے مُرید، قمبر چاکر اور دیگر شھداء نے اپنی جانیں قربان کیں اور اسی طرح لاپتہ افراد میں سے سابقہ چئیرمین زاہد بلوچ عرفِ بلوچ خان اور انفارمیشن سیکریٹری شبیر بلوچ عرفِ لکمیر اور ذاکر مجید نے اپنے قوم کو آگاہی دی تھی۔ گائیڈ کرتے تھے کہ ہمارا قوم ایک قبضہ گیر کے قبضے میں ہے اور غلام قوم ہے، تو ہم سب کا فرض بنتا ہے کہ ہم اپنے قوم کو غلامی کی زنجیر سے نکالیں ایک خود مختار قوم بنیں۔

اگر آج شھداء اور لاپتہ بلوچ طالب علم زندہ یا آزاد ہوتے، تو ہمارے قوم کوبلوچستان یونیورسٹی میں جاوید اقبال جیسا درندہ اور ان کے ساتھیوں نے بلیک اور حراساں نہیں کیا ہوتا اور حراسمنٹ کی بات دور کی بات ہے بلکہ کسی کو ہمت نہیں ہوتی کہ وہ ہمارےقوم کی طرف آنکھ اُٹھا سکے۔ اگر شھیدوں نے اپنا قیمتی جان اور مال قربان کیا تھا قوم کیلئے آج قوم کو ان لوگوں کی کمی محسوس ہورہی ہے۔

آج دشمن اگر بی ایس او آزاد کا نام دیواروں یا دیگر جگہوں پر لکھا دیکھتے ہیں تو پاگلوں کی طرح لوگوں کو مارنا شروع کردیتے ہیں، کیونکہ ہمارے شھدا اور باقی قومی لیڈروں نے ان لفظوں سے بی ایس او آزاد کو بنایا اور لکھ کر ایک تنظیم کی شکل میں پیش کیا تھا۔ آج دشمن ان الفاظ کو دیکھتے ہی ڈرجاتے ہیں، ان لوگوں کے دل میں ایک بڑا خوف پیدا ہوتا ہے بلکہ صرف ان الفاظ کی وجہ سے نہیں اُن شھداءاور لاپتہ افراد کی وجہ سے جنہوں نے اس تنظیم کو مضبوط سمجھ کر قوم کو شعور اور آگاہی دی۔ جب میں بی ایس او کے جھنڈے اور نام کو دیکھتے ہی شھیدوں کی کمی کو محسوس کرتی ہوں، فوراً میری آنکھوں سے آنسو ٹپکنے لگتے ہیں۔

آج دشمن بلوچ طالب علموں کو دیکھ کر اُسکی نیند حرام ہوتی ہے اور بلوچ طلبا سے بہت نفرت کرتاہے، بلوچ طالب علموں کو اُٹھاکر ٹارچر سیلوں میں بند کرکے سزا دیتاہے، اس کے ذہن میں وہی بی ایس او محراب، بی ایس او آزاد کی کارکردگی نقش ہے۔ اسلیئے وہ ڈرتاہے، بلوچ طالب علموں سے بلوچوں کو تعلیم سے دور کرنے کی سازش کررہاہے اور تعلیمی اداروں میں بلوچ طلباءتنظیموں پرپابندی لگا کر اداروں کے اندر اپنا مورچہ اور چھاونی بناتاہے، اپنے ڈرکی وجہ سے کہ کہیں یہ طلباءتنظیم بی ایس او کی طرح ہمارے سامنے رکاوٹ نہ بن جائیں اور بلوچ قوم کو آگاہی نہ دیں۔ ویسے پٹھانوں کے دو تنظیم پی ایس ایف اور پی ایس او پر پابندی نہیں ہے، صرف بلوچ طلباء تنظیموں پر پابندی لگاکر اپنی ہار اور شکست کو محسوس کررہاہے۔

آج سب بلوچوں کو 26نومبر بی ایس او کا دن یاد کرنا ہوگا اور بی ایس او کے کارکنوں سے گزارش ہے کہ وہ بی ایس کو اور مضبوط بنانے کی کوشش کریں اور اپنے قوم کو تعلیمی تریبیت دے کر نوجوانوں کے ہاتھ میں قلم اور کتاب دیں کیونکہ اگر جو قوم اپنے آپ کو زندہ رہنا اور قوم کو مضبوط دیکھنا چاہتاہے تو اس قوم کے ہاتھوں میں قلم اور کتاب ضروری ہے۔ کیونکہ اتنا طاقت قلم میں ہے نہ ہی بندوق اور ایٹم بمب میں ہے، قلم ایک آرٹیکل لکھ کر لاکھ دشمن جلاتاہے اور بندوق کی ایک گولی ایک دشمن کو ختم کرتا ہے، لاکھ کو ایک گولی ختم نہیں کرسکتا۔

قلم اور کتاب کا ایک بڑا کردار ہے، اگر جس کو معلوم ہے قلم، کتاب اور تعلیم ہرانسان اور ہر قوم کیلئے بھی ضروری ہے، پہلے میں اپنی مثال دیتی ہوں کہ جب میں اپنی علاقے میں رہتی تھی مجھے معلوم نہیں تھا کہ تعلیم ہوتاکیاہے؟ جب میں بی ایس او آزاد کا ممبر ہوا کرتا تھا، ایک ممبر ہوتے ہوئے مجھے کچھ پتہ نہیں تھا، پھر چند بہن اور بھائیوں کی وجہ سے میرے دماغ میں لفظِ تعلیم بیٹھ گیا، تو میں اپنی سینئر بہن اور بھائیوں سے بہت سے چیزیں سیکھ لیں، تو پھر میں کراچی گئی تو وہاں میں نے بہت کوشش کی تھی اور اس زمانے میں دسویں جماعت میں پڑھتی تھی، تو ہمارے گاؤں میں ایسا استاد بھی نہیں تھا کہ وہ اچھے طریقے سے ہمیں پڑھا سکے، اگر آج مجھے لکھنا اور پڑھنا آتا ہے تو بی ایس او اور کارکنوں کی وجہ سے، اس لئے میں بی ایس او کے دنوں کو بھول نہیں سکتی، بی ایس او اور بی ایس او کے باقی ممبروں کی وجہ سے صرف میں نہیں بلکہ کئی بلوچوں نے شعور اور تعلیم حاصل کی ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔