پوری دنیا خاموشی سے دیکھتی رہی جب 1948 میں پاکستان نے ظالم فوج کے ذریعے بلوچستان پر قبضہ کر لیا۔ ـ یہاں تک کہ آج بھی پوری دنیا خاموش ہے جب پاکستانی فوج معدنیات سے مالامال بلوچستان میں مسلسل انسانی حقوق کی بدترین پامالی کررہی ہے۔ لیکن بلوچ دلیرانہ رویہ اپناتے ہوئے پاکستانی قبضے کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں اور چائنا سے اپنے معدنیات کے لوٹ مار کے خلاف مزاحمت کر رہے ہیں۔ ـ بلوچ نیشنل مومنٹ (بی این ایم) نے بلوچستان کی آزادی کی جدوجہد کی سربراہی کی ہے اور ڈاکٹر مراد بلوچ بی این ایم کے سیکریٹری جنرل نے اپنے پہلے انٹرویو میں “ویویک سنہا” کو کہا ہے کہ بلوچ جدوجہد کو ایک اور مسلح شورش کے طور پر خارج نہیں کیا جائے بلکہ یہ ایک الگ ملک بلوچستان کی آزادی کی جدوجہد ہے۔ ان خیالات کا اظہار ڈاکٹر مراد بلوچ نے گذشتہ روز دیئے اپنے ایک انٹرویو میں کیا۔
ویویل سنہا: بلوچ قوم نے پاکستان کے خلاف اسلحہ کیوں اٹھا رکھا ہے؟ وہ کیا چاہتے ہیں؟
ڈاکٹر مراد بلوچ: 71 سال قبل برصغیر میں برطانوی انخلا کے وقت بلوچستان کو ایک آزاد اور خودمختار ریاست کے طور پر اعلان کیا گیا تھا۔ برصغیر کے دوسری ریاستوں کے مقابلے میں بلوچستان کے ساتھ بہت مختلف سلوک کیا تھا۔ برطانیہ کے ہندوستان سے انخلا کے بعد آٹھ ماہ تک بلوچستان ایک آزاد ملک تھا۔ لیکن آٹھ ماہ بعد، پاکستان نے بندوق کے ڈور پر آزاد اور خودمختار ریاست بلوچستان کا الحاق کرلیا۔ تب سے بلوچ قوم بنیادی طور پر پاکستانی قبضے کے خلاف مزاحمت کر رہی ہے۔ بلوچ اپنی کھوئی ہوئی خودمختاری اور بلوچستان کی آزاد حیثیت دوبارہ حاصل کرنا چاہتے ہیں جس کی ضمانت اقوام متحدہ کے منشور میں ہر قوم کو دی گئی ہے۔
وی ایس: ہم پاکستانی مسلح افواج کے ذریعے بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں سنتے رہتے ہیں۔ یہ باقاعدگی سے کیوں ہوتا ہے؟
ڈاکٹر مراد بلوچ: ہاں پاکستانی سیکیورٹی ایجنسیوں نے اپنی ظلم سے تباہی مچا دی ہے۔ بین الاقوامی انسانی حقوق اور میڈیا تنظیموں کے لئے یہاں کام کرنا تقریباً ناممکن ہوچکا ہے۔ اس سے انہیں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا سلسلہ جاری رکھنے کا موقع مل چکا ہے۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیا، بلوچ عوام کے خلاف بدنام زمانہ “کل اینڈ ڈمپ“ (مارو اور پھینکو) پالیسی، بلوچ نوجوانوں، عمائدین، خواتین اور بچوں کی گمشدگیوں کا سلسلہ ایک روزمرہ کا معمول بن چکا ہے۔ چالیس ہزار سے زیادہ بلوچ جبری طور پر لاپتہ ہوچکے ہیں۔ عالمی طاقتوں کے غیر سنجیدہ ہونے سے پاکستان کو اس Slow Motion Genocide نسل کشی جاری رکھنے کی مکمل اجازت مل چکی ہے۔
وی ایس: برائے مہربانی بلوچستان کی آزادی کی جدوجہد کے بارے میں ایک تاریخی تناظر پیش کریں۔
ڈاکٹر مراد بلوچ: بلوچ قوم برطانوی نوآبادیات کے خلاف مختلف دور میں جدوجہد کرتی رہی اور پھر پاکستان کے خلاف جدوجہد کو جاری رکھا۔ اور انگریزوں نے مختلف معاہدوں کے ذریعے بلوچستان پر طاقت حاصل کیا تھا جبکہ پاکستان نے بلوچستان پر قبضہ اور اسے نوآبادیات بنانے کے لئے فوجی طاقت کا استعمال کیا اور اکیسویں صدی کے اس جدید دور میں بھی وہی کام کر رہا ہے۔ پہلے دن سے ہی بلوچ قوم نے اس زبردستی قبضے کی مزاحمت کی اور اپنے دفاع اور اپنی آزادی کو دوبارہ حاصل کرنے کے لئے جدوجہد جاری رکھی ہے۔
وی ایس: دنیا میں بہت کم لوگ بلوچستان کی جنگ آزادی کی جدوجہد کے بارے میں جانتے ہیں۔ متعدد افراد بلوچستان کی آزادی کی جدوجہد کو صرف ایک اور مسلح مزاحمت کی حیثیت سے دیکھتے ہیں، جس کا مقصد پاکستان کو غیر مستحکم کرنا ہے۔ اس بارے میں آپ کی رائے؟
ڈاکٹر مراد بلوچ: میں آپ کے سوال کے دوسرے حصے کا جواب پہلے دوں گا۔ میں اس تصور کو مسترد کرتا ہوں کہ بلوچ تحریک کا مقصد پاکستان کو غیر مستحکم کرنا ہے، ہم محض اپنی کھوئی ہوئی آزادی چاہتے ہیں۔ جیسا کہ میں نے آپ کو پہلے بتایا تھا کہ ہماری تحریک خود پاکستان سے بھی زیادہ پرانی ہے اور برطانوی نوآبادیات کے خلاف ہماری جدوجہد آزادی کی جڑیں ہیں۔ پاکستان نے محض مزید بد ماش اور ظالم قابض کے طور پر برٹش کی جگہ لی ہے۔ اور آپ ٹھیک کہتے ہیں کہ دنیا بلوچ قوم کی پریشانیوں کے بارے میں نہیں جانتی کیونکہ بلوچستان میں میڈیا کی مکمل بلیک آؤٹ ہے۔ انٹرنیٹ بلوچستان کے اندرونی حصوں میں بند ہے۔ دوسری بات پاکستان مختلف طریقوں سے بلوچ قوم کو دبا رہا ہے۔ پاکستان ایک منظم ثقافتی نسل کشی کر رہا ہے اور معدنیات سے مالا مال علاقوں کے لوگوں کو ان کی آواز سے محروم رکھنے کے لئے ان کو پڑھائی سے دور رکھا جارہا ہے۔ مزید یہ کہ ہم بین الاقوامی میدان میں بھی گھیرے میں ہیں اور بین الاقوامی میدان میں اب بھی ہماری آواز بلند نہیں ہورہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں بلوچستان میں ہونے والی پاکستانی بربریت کے بارے میں بہت کم معلومات ہیں۔
وی ایس: آپ بلوچستان کی ایک آزاد قوم کے لئے اپنے مطالبہ کو کس طرح ثابت کرسکتے ہیں؟
ڈاکٹر مراد بلوچ: سب سے پہلے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ پاکستان کو کوئی حق نہیں کہ وہ ہم پر اپنی رٹ لگائے۔ ہمارے پاس ایک آزاد ریاست ہے اور اس وقت ہم غیر قانونی طور پر پاکستان کے قبضے میں ہیں۔ اور ہمارے پاس ایک ریاست کا تاریخی حق ہے۔ دوسرا یہ کہ بلوچ قوم کردوں کے بعد دوسری سب سے بڑی قوم ہے جس کی اپنی آزاد ریاست نہیں ہے۔ ہماری اپنی زبان، ثقافت، تاریخ اور زمین ہے۔ ہمارے لوگوں میں ایک عام نفسیات ہے۔ ہمارے پاس وہ سارے اجزاء ہیں جو کسی ریاست کے لئے ضروری ہیں۔ مزید یہ کہ، پاکستان کے قبضے کے فورا بعد ریاست پاکستان نے اپنی فوجی ،معاشی ، مذہبی اور ثقافتی طاقت کے ساتھ بلوچ قوم کو برطانوی خطوط میں ضم کرنے کی کوشش کی ہے جسے ہم پاکستان کے نام سے جانتے ہیں۔ پاکستان اپنی حدود میں موجود تنوع کو تسلیم نہیں کرتا اور نہ ہی اسے تسلیم کرے گا اور وہ قومی تعمیر کے نام پر منظم نسل کشی کر رہا ہے۔ اگر ہمارے ساتھ یہی رویہ ظاہر کیا جائے تو ہمارے لئے ”کرنا یا مرنا“ Do or Die ہی ایک راستہ ہے۔ ہماری پوری بقا خطرے میں ہے اور اس کی ضمانت صرف اسی صورت میں مل سکتی ہے جب ہم جمہوری اور سیکولر اقدار پر مبنی اپنی آزاد اور خودمختار ریاست حاصل کرلیں۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ نظریہ پاکستان کا “خالص ملک” خود ایک نیا فاشسٹ نظریہ ہے جس کا موازنہ “نازی” کے نظریات سے کیا جاسکتا ہے۔ آپ دنیا بھر میں اسلامی دہشت گردی کی حمایت کرنے کے عالمی فاشسٹ ایجنڈے اور اس کے مذہب اور فوجی حکمرانی کی گھریلو سیاست میں وحشی فاشزم کو دیکھ سکتے ہیں، جو ہمیں اپنے وجود کے خلاف مزاحمت کرنے پر مجبور کرتا ہے۔
وی ایس: چین نے اقتصادی راہداری کے لئے بلوچستان میں بے پناہ سرمایہ کاری کی ہے۔ کیا آپ کو نہیں لگتا کہ چین نے بلوچستان میں روزگار کے مواقع پیدا کرنے میں مدد فراہم کی ہے؟
ڈاکٹر مراد بلوچ: نہیں۔ بلکل نہیں۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) ایک سامراجی منصوبہ ہے۔ اس کی وجہ سے بلوچوں کو اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوا ہے اور نہ ہی کوئی ملازمت ملی ہے ، اس کے بجائے اس نے ہماری قومی دولت کے استحصال اور لوٹ مار کو تیز کردیا ہے اور صرف چین اور پاکستان کے صوبہ پنجاب کو فائدہ ہو رہا ہے۔ آلودگی بڑے پیمانے پر ہورہی ہے اور لوگ نقل مکانی کررہے ہیں۔ ـان منصوبوں سے ہونے والے ماحولیاتی نقصان سے نمٹنے کے لئے بلوچ عوام کو اکیلا چھوڑ دیا گیا ہے۔ ہمارے سمندروں سے ماہی گیری کے بڑے میدان پہلے ہی پنجابی (پاکستان کے صوبے) اور چینی فشینگ کمپنیوں نے ختم کردیئے ہیں اور ہمارے ہزاروں ساحلی لوگوں کی طرز زندگی کو یکسر تبدیل کردیا ہے۔ اس کے علاوہ اس پروجیکٹ کے خلاف تمام پرامن آوازوں کو بدنام زمانہ “کل اینڈ ڈمپ” پالیسی کے ذریعہ خاموش کردیا گیا ہے۔ لہذا یہ منصوبہ بلوچ عوام کے لئے صرف موت اور تباہی لائے گی اور یہ کسی بھی طرح سے بلوچوں کی فلاح و بہبود کے لیئے نہیں ہے۔ میں ترقی کے خلاف آواز نہیں اٹھانا چاہتا لیکن آسان الفاظ میں ایک طرف یہ منصوبہ بلوچ قوم کے خلاف پاکستان کی نسل کشی کی مشینری کا ایک حصہ ہے اور دوسری طرف اس کی علاقائی اور بین الاقوامی اجارہ داری کے لئے چینی بولی کا ایک حصہ ہے۔
وی ایس: پاکستان کے دوسرے حصوں میں جاری تشدد کے بارے میں آپ کا کیا نظریہ ہے( فاٹا، سرحد،
پی.ٹی.ایم،وغیرہ ـ)
ڈاکٹر مراد بلوچ: میرے خیال میں پشتون بھی یہ احساس کر رہے ہیں کہ ان پر ظلم کیا جارہا ہے اور ان کی شناخت کو بھی بلوچوں اور سندھی قوموں کی طرح مٹایا جارہا ہے۔
وی ایس: کرد داعش کے خلاف جنگ میں سب سے آگے رہ چکے تھے لیکن پھر بھی انہیں امریکہ نے درمیان میں چھوڑ دیا اور اب کرد فوجوں پر ترکی کی افواج حملہ آور ہو رہے ہیں جن کو پاکستان کی بھی حمایت حاصل ہے۔ مشرق وسطی میں ان پیشرفتوں پر آپ کے خیالات؟
ڈاکٹر مراد بلوچ: جی ہاں امریکہ نے کردوں کو دھوکہ دیا ہے اور اب ترکی کو کردوں پر حملہ کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ عالمی طاقتوں کی خارجہ پالیسی کی نوعیت یہ ہے کہ ان کے مستقل دوست اور دشمن نہیں ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ پاکستان دہشت گردی اور فاشزم کا اڈہ ہے اور اس نے بنگلہ دیش میں تاریخی طور پر نسل کشی کی ہے اور اسی طرح ترکی نے آرمینیائیوں کی تاریخی نسل کشی کی ہے اور اب وہ کرد نسل کشی کر رہا ہے۔ نسل کشی اور دہشت گردی دونوں ہی ان (پاکستان اور ترکی) کی خارجہ پالیسیوں کے ٹولز ہیں اور ان دونوں کی مماثلت ایک پرندے کے دو پنکھ کے ہیں۔ لیکن امریکہ اور یورپی یونین کے ممالک جیسے عالمی طاقتوں کی حمایت مایوس کن ہے۔ یہ دیکھنا بھی مایوس کن ہے کہ پاکستان میں بلوچستان میں انسانی حقوق کی وحشت زدہ پامالی کی ریکارڈ رکھنے کے باوجود ، یوروپی یونین کے جی ایس پی + (جنرلائزڈ اسکیم آف پریپریئنس ) تجارتی نظام سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
وی ایس: اگرچہ امریکہ نے اپنے کرد اتحادیوں کے ساتھ دھوکہ کیا لیکن پھر بھی امریکہ عالمی سیاست کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ ـ میں یہ سمجھنا چاہتا ہوں کہ ریاست متحدہ امریکہ سمیت عالمی سیاست میں بی این ایم نے کیا تعلقات حاصل کیے ہیں۔ پچھلے کچھ سالوں میں ہم نے امریکی کانگریس میں صرف پشتون اور سندھی آوازیں کو گونجتے ہوئے سنا ہے۔ بلوچ عوام کے لئے واحد تقریر ڈانا رورباکر کی تھی، جو پانچ سال پہلے تھی۔
ڈاکٹر مراد بلوچ: میں آپ سے متفق ہوں اور اپنے پہلے والے جواب کی طرح میں نے کہا کہ مظلوم اقوام میں اب بھی حکمت عملی کی کمی ہے۔ آج کل پوری دنیا میں سندھی اور پشتون کا ایک بہت بڑا “ڈائسپورا” ہے۔ ان دونوں کی ہندوستان اور افغانستان جیسی قومی ریاستیں ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے بلوچوں کے پاس اس وقت تک مسلسل جدوجہد کرنے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے جب تک دنیا بلوچ قوم کی پریشانیوں کا ادراک نہ کر لے اور ہماری حمایت میں آجائے۔
وی ایس: 2016 میں پاکستانی افواج کے ذریعے ڈاکٹر منان بلوچ کے قتل کے بعد آپ نے چارج سنبھالا۔ وہ بڑے پیمانے پر متحرک ہونے کے لئے بلوچستان کے ہر کونے کا دورہ کرنے کے لئے مشہور تھا۔ کیا آپ یا آپ کی ٹیم یہ کام کر سکتی ہے؟ یا یہ آج کے حالات میں بھی ممکن ہے؟ اگر ممکن نہیں تو پھر آپ نے بلوچ عوام کو بلوچستان کی آزادی کی جدوجہد میں شامل کرنے کے لئے کیا اقدامات اٹھائے ہیں؟
- ڈاکٹر مراد بلوچ: بلا شبہ ڈاکٹر منان بلوچ ایک ہیرو، عظیم سیاسی کارکن اور ایک استاد تھے۔ اگر چہ ڈاکٹر منان صاحب نے جو کچھ کیا ہے اسے کرنے کی اب حالات اجازت نہیں دیتے لیکن ہم نے ان کا کام جاری رکھا ہوا ہے۔ ہم نے بڑے پیمانے پر متحرک ہونے کے اپنے حربوں کو مکمل طور پر تبدیل کردیا ہے۔ اب ہم دوسرے ذرائع سے روز مرہ کی سرگرمیوں میں اپنے لوگوں کے ساتھ رابطے میں ہیں جو ڈھکے اور چھپے دونوں طریقوں سے ہیں۔ ہمارے سیاسی کارکنان بھی ہماری پارٹی کی پالیسی کو عوام تک پہنچانے میں کردار ادا کرتے ہیں۔