شہیدوں کا خواب – زہرہ جہاں

195

شہیدوں کا خواب

تحریر: زہرہ جہاں

دی بلوچستان پوسٹ

خواب سب دیکھتے ہیں، بس کبھی تعبیر ڈھونڈتے نہیں تو کھبی ڈھونڈ نہیں پاتے ہیں- خوابوں کا دارومدار ہمارے رویوں اور سوچ پہ ہوتا ہے. اسکا تعلق ہماری خوشی اور کرب سے ہوتا ہے جس سے ہم سونے سے پہلے گذر رہے ہوتے ہیں۔

لیکن صرف نیند میں نظر آنے والے خواب خواب نہیں ہوتے بلکہ خواب ایک جستجو, کوشش اور محنت ہوتی ہے، طاقت, اچھائی اور خوشحالی کی امنگوں تک پہنچنے کا. خواب وہ ہوتا ہے جو ہماری خواہش ہوتی ہے. جو ہمارے پاس نہیں ہوتی ہے. جس میں حقیقت کا رنگ بھرنے کے لیۓ ہم کچھ بہت بڑا کرنا چاہتے ہیں.

بہر حال مسئلہ یہ بھی ہے کہ کچھ صرف کرنا چاہتے ہیں اور کچھ حقیقت کو حقیقت کا روپ دیکر خواب کو حقیقت کرجاتے ہیں۔ کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو خواب کو حقیقت کے رنگ میں ڈھالنے کی جدوجہد میں خود سے گذر جاتے ہیں. اپنی جان سے گذر جاتے ہیں. ان لوگوں کے خواب ادھورے رہ جاتے ہیں. لیکن پھر ایسا بھی ہوتا ہے بہت سے لوگوں کے خواب مشترک ہوتے ہیں. اگر ایک سے پورا نہ ہوپاۓ تو دوسرے اسکو پورا کرنے کی تگ و دو میں لگ جاتے ہیں.

اگر بلوچستان کی بات کریں تو یہاں اکثریت کے خواب مشترک ہی ہوتے ہیں. بہت سے لوگ سردار, نواب و میر کے رتبے اور شان و شوکت کے خواب دیکھتے ہیں. خواب کو حاصل کرنے کے لیۓ یہ لوگ بھی بھرپور محنت کرتے ہیں جن میں چاپلوسی اور تھال چٹی سب سے طاقتور ہتھیار مانے جاتے ہیں. جن لوگوں کو ایسا کرنے کی ہمت یا سعادت حاصل نہیں ہوتی وہ خود کو خود ہی بے وقوف یعنی سردار, میر اور نواب بنانے کا ایکٹنگ شروع کرتے ہیں. یقین نہیں آتا تو بلوچستانیوں کے سوشل میڈیا آکاونٹس, موٹرسائیکل نمبر پلیٹس اور گاڑیوں کے پیچھے یا آگے والے شیشوں پہ کبھی غور کیجیۓ گا. پریشان کن بات یہ ہے کہ یہ موزی مرض نوجوانوں میں حد سے بے حد پھیل گئی ہے اور مزید جدت حاصل کر رہی ہے.

انہی مشترک خوابوں والے بلوچوں میں ایک گروہ انکا ہے جو سرکاری اور جھوٹی شان و شوکت اور روپیہ پیسہ کے لیۓ جیتے اور مرتے ہیں. یہ سرداروں اور نوابوں سے بھی دو قدم آگے جانا چاہتے ہیں. انکا دین و ایمان پیسے سے شروع ہوکر زیادہ پیسوں پہ ختم ہوجاتا ہے. انکے ایمان کا دارومدار ایک کے ساتھ لگے ہوۓ صفر کے مطابق ہوتا ہے. جتنے صفر زیادہ اتنا زیادہ ایماندار انسان. اسی ہوس و لالچ میں لوگ اپنی ننگ و ناموس, دین و ایمان, خود, خودی اور وطن کو بیچ ڈالتے ہیں.

دنیا میں جتنے بھی محکوم و غلام اقوام ہیں، ان سب کے محکومیت و غلامی میں سامراج و قبضہ گیر ریاست, بکے ہوۓ نام نہاد نواب, سردار اور میر کے ساتھ ساتھ ان بے ایمان لوگوں کا بھی بڑا ہاتھ ہوتا ہے. اپنے ہی قوم کا استحصال یہ خود ہی شوق سے کرتے ہیں…استحصال کرنے کے لیۓ پیسے ملتے ہیں اور پیسہ تو بڑھ چڑھ کر چیخ چیخ کے بولتا ہے. ہمارے ہاں کبھی کبھی دھاڑیں بھی مارتا ہے.

بلوچستان میں مشترک خواب والے لوگوں میں تیسرا قسم ان خوش قسمت لوگوں کا ہے جن پہ وطن ناز کرتا ہے. جنکی پیدائش پہ لمہ وطن خوشی سے جھوم اٹھتا ہے. انکو پیدا کرنے کے وقت ماں جس تکلیف سے گذرتی ہے وہ بھول جاتی ہے. اسے اپنے غموں کا مداوا اپنے ان بیٹوں میں نظر آتا ہے، جسے دنیا وطن زادوں کے نام سے یاد کرتا ہے. بلوچ انھیں سرمچار کہہ کر شرف بخشتے ہیں. ہر کوئی انکے گن گاتا ہے. ہر کوئی انکی عزت کرتا ہے. وطن کی ہر ماں اپنے اس بیٹے پہ فخر کرتی ہے جو لمہ وطن کو بھی اپنا حقیقی لمہ سمجھتے ہیں. ان بیٹوں کو پتہ ہوتا ہے انکے ماں کو جننے والا بھی تو وطن مادر ہے.

چونکہ بلوچستان اس وقت غلامی کے زنجیر میں بندھا ہوا ہے. ان لوگوں کا خواب اپنے مادر وطن کو آزاد کرنا ہوتا ہے. سامراجی ریاست پاکستان اور اسکے دو ٹکے کے سردار , نواب اور پیسے کے پجاری لوگوں کے مذموم عزاہم کو نیست و نابود کرنا ہوتا ہے. ان سب عناصر کا خاتمہ کرنا ہوتا ہے جو بلوچستان کے غلامی کی وجہ ہیں۔

یہ خواب سب سے پہلے میر محراب خان نے دیکھا تھا. اس سے پہلے اس خواب کا وجود نہیں تھا کیونکہ بلوچستان آزاد تھا، اس وقت میر محراب خان کے بعد یہ ہر اس لال کا خواب بنتا گیا جسکا دین و ایمان وطن مادر تھا. تب سے یہ خواب وطن زادوں کو دکھتا گیا اور وہ اسکی تکمیل میں لگتے گئے. اسکی تکمیل میں آخری حد جوکہ انسان کی جان ہوتی ہے اس سے گذرتے گئے. جان پہ جان نثار کرتے گئے. آندھی اور طوفان کی نیندیں اڑاتے گئے. قوضہ گیر ریاست اور اسکے بدوؤں کو ڈراتے گئے اور نشانِ عبرت بناتے گئے۔

بلوچستان کا اب بھی ہر حقیقی فرزند, جسکے خون میں صرف اور صرف بلوچستان کا لال خون ہو، جو ناپاک کے سفید خون سے پاک صاف ہو, یہ خواب پیدا ہوتے ہی دیکھتا ہے. وقت کے ساتھ ساتھ جب وہ بڑا ہوتا جاتا ہے ساتھ ساتھ اسے لمہ جیجا اس خواب کا تعبیر بھی بتاتا رہتا ہے. جب بیٹے کے جسم و جان سے جوانی کی مہک اور خوشبو نمودار ہوتی ہے تو ماں اپنے لال کو اسکے خواب کی تکمیل کے لیۓ پہاڑوں کے حوالے کرتا ہے.

پہاڑوں کے ساتھ مل کر بیٹا وطن کی آزادی کی جنگ شروع کردیتا ہے. اور دشمن یقین دلاتا ہے کہ یہ جنگ بلوچستان کی آزادی پہ ختم ہوگی. دشمن کو یقین دیتا ہے کہ اسکی نیندیں تب تک حرام رہینگے جب تک بلوچستان کو آزاد نہیں کیا جاتا. دشمن کو یقین دیتا ہے کہ وہ چین و سکون سے تب تک نہیں رہ سکتا جب تک بلوچستان کی زنجیریں کھول نہیں دیئے جاتے. دشمن کو یقین دلاتا ہے کہ یہ اسکی خوش فہمی و غلط فہمی ہے کہ بلوچستان نے بہادر بیٹے جننا بند کردیۓ ہیں. دشمن کو یقین دلاتا ہے کہ بلوچستان کبھی بنجر ہو نہیں سکتی.

وطن کے ان بیٹوں پہ وطن خود ہی قربان ہونا چاہتا ہے. وطن انکے خون کی بوندوں سے گواڑخ اگاتا ہے اور گواڑخ میں مہک بھی ان فرزندوں کے خون سے ڈالتا ہے. ہر گل و گلاب اپنے اندر ان فرزندوں کے خون کی خوشبو سمانے کی کوشش کرتا ہے. ہر پہاڑ و تلار اپنے نام کو انہی فرزندوں کے نام سے منسوب کرنے کی جستجو کرتا ہے. دریا یا جنگل سب کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ بلوچستان کے بہادر بیٹے کبھی انھیں اپنا مسکن بنا لیں اور انہیں خود پہ ناز کرنے کا ایک موقع دیں. نیز بلوچستان کی ہر شے اپنے نام کے ساتھ سرمچار لگانے کا حسین خواب دیکھتا ہے.

اسی خواب آزادی کے فرزند کچھ خواب کی تکمیل میں جہان فانی سے کوچ کرجاتے ہیں. جو دھرتی جان پہ جان نثار کرتے ہیں. جو اپنے خون سے آزادی کی تاریخ لکھتے ہیں. جو آزادی کی کتاب لکھنے کے لیۓ اپنے خون سے سیاہی مہیا کرتے ہیں. جو مادر وطن کی آزادی کے لیۓ مرتے نہیں بلکہ شہید ہوتے ہیں اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیۓ امر ہوجاتے ہیں سنہری یادوں اور الفاظ کے ساتھ.

وطن کے آزادی کے خواب کے تکمیل میں جان نثار کرنے والے انہی شہزادوں کو یاد کرنے اور خراج تحسین پیش کرنے کے لیۓ ایک مخصوص دن بی ایس او (آزاد) نے مختص کیا تھا جو کہ 13نومبر یوم شہداۓ بلوچستان کے نام سے منایا جاتا ہے. گوکہ یہ وطن زادے کسی تعریف و تحسین کے محتاج نہیں لیکن انکا جو پیغام تھا, جو مشن اور جو خواب تھا وہ اجاگر کرکے سب تک پہنچانے کے لیۓ ضروری ہے کہ اس دن ہم سب چیزیں چھوڑ کر یہ دن شہیدوں کے لیۓ مختص کریں.

انکے قصے کہانیاں, تصویریں اور ویڈیوز میں بند یادیں دنیا کو دکھایں. دنیا کو دکھایں کہ بلوچستان کیسے کیسے عظیم ہستیاں جنتا ہے. دنیا کو بتاۓ کہ بلوچستان کی مائیں کتنی خوش قسمت ہیں. دنیا کو بتلاۓ کہ بلوچ ایک آزاد قوم رہی ہے اور رہیگی. یہ اپنی آزادی پہ کبھی سمجھوتہ نہیں کرتی. یہ اپنی آزادی کے لیۓ کچھ بھی کرسکتی ہے. وہ سب کچھ کرسکتی ہے جو کسی کے گماں و بیاں میں ہی نہ ہو. تو آیئے اپنے شہیدوں کے ساتھ عہد کریں کہ 13 نومبر یوم شہداۓ بلوچستان کے دن عقیدت, عزت و احترام کے ساتھ ہم انکا پیغام دنیا تک ضرور پہنچایںگے.

نوٹ: اس مضمون کا مرکزی خیال رفیع مینگل کی ایک تحریر سے لیا گیا ہے.


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔