اجلاس میں افغانستان، پاکستان، امریکہ اور چین کے نمائندے شرکت کر رہے ہیں
افغانستان میں دیرپا امن کے حصول اور اس مسئلے کا حل سیاسی مذاکرات کے ذریعے تلاش کرنے کے لیے چار ملکی گروپ کا مشاورتی اجلاس پیر کو عمان کے دارالحکومت مسقط میں ہو رہا ہے۔
اس اجلاس میں افغانستان، پاکستان، امریکہ اور چین کے نمائندے شرکت کر رہے ہیں۔
چار ملکی گروپ کا یہ چھٹا اجلاس ہے، جس میں پاکستان کی نمائندگی سیکرٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ کر رہی ہیں۔
جنوری 2016ء میں قیام کے بعد سے اس چار ملکی گروپ کے پانچ اجلاس ہوئے ہیں اور آخری اجلاس 18 مئی 2016ء کو پاکستان میں ہوا تھا۔
لیکن اس کے تین ہی روز بعد 21 مئی کو افغان طالبان کے سربراہ ملا اختر منصور بلوچستان میں ایک ڈرون حملے میں مارے گئے تھے، جس کے بعد امن مذاکرات کی کوششوں کو دھچکا لگا تھا اور چار ملکی گروپ کے اجلاس تعطل کا شکار ہو گئے تھے۔
لیکن تقریباً ڈیڑھ سال بعد دوبارہ اس گروپ کے اراکین ایک بار پھر مل رہے ہیں تاکہ طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کی کوشش کے بارے میں مشاورت کی جائے۔
پاکستانی سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کے چیئرمین مشاہد حسین سید نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا ہے کہ یہ خوش آئند پیش رفت ہے کہ افغانستان کے مسئلے کے سیاسی حل کے لیے کوششوں کا ایک بار پھر آغاز ہوا ہے۔
’’میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ تعطل ٹوٹا ہے، (پاکستان فوج کے سربراہ) جنرل باجوہ کے دورہ کابل کے بعد ۔۔۔۔ (افغانستان میں امن کا) ایک ہی واحد راستہ ہے، مذاکرات۔ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات، جس میں امریکہ بھی شامل ہو، چین بھی اور پاکستان بھی۔‘‘
رواں ماہ کے اوائل میں پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے کابل میں افغان صدر اشرف غنی سے تفصیلی ملاقات میں دوطرفہ تعلقات اور سلامتی کی صورت حال پر بات چیت کی تھی۔
پاکستان کا موقف رہا ہے کہ افغانستان میں دیرپا امن کا قیام افغانوں کی زیر قیادت مذاکرات ہی سے ممکن ہے۔
گزشتہ ہفتے افغانستان سے متعلق شنگھائی تعاون تنظیم کے رابطہ گروپ کے نائب وزرائے خارجہ کا ایک اجلاس ماسکو میں ہوا تھا۔ اس اجلاس میں بھی پاکستانی وفد کی قیادت سیکرٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ نے کی تھی۔
پاکستان، افغانستان، چین، بھارت، روس، قازقستان، تاجکستان، ازبکستان اور ترکمانستان کے نمائندوں پر مشتمل رابطہ گروپ کے اجلاس میں اپنے خطاب میں تہمینہ جنجوعہ نے افغانستان میں دیرپا امن کے حصول کے لیے طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات کے لیے سنجیدہ کوششوں کی ضرورت پر زور دیا تھا۔
واضح رہے چار ملکی گروپ کے اجلاس کے بارے میں افغان طالبان کی طرف سے کہا گیا ہے کہ اُن کا اس مذاکراتی عمل سے کوئی تعلق نہیں ہے۔