بلوچستان اسمبلی کے اراکین نے دکی میں احتجاجی مظاہرین پر ضلعی انتظامیہ کی جانب سے تشدد، مقدمہ اندراج اور بولان میڈیکل کالج کے ہاسٹل سے ہاؤس جاب کرنے والے ڈاکٹرز کی بے دخلی کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ انتظامی آفیسران خود کو عوام کا خادم سمجھتے ہوئے ان کے لئے سہولیات پیدا کریں اور اپنے آپ کو بادشاہ نہ سمجھے۔ جمعرات کے روز بلوچستان اسمبلی کا اجلاس ڈپٹی اسپیکر سردار بابر خان موسیٰ خیل کی صدارت میں 2 گھنٹے کی تاخیر سے تلاوت کلام پاک سے شروع ہوا۔
اجلاس میں بلوچستان نیشنل پارٹی کی شکیلہ نوید دہوار نے بولان میڈیکل ہاسٹل سے ہاؤس جاب ڈاکٹرز کی بے دخلی کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ کچھ روز قبل بھی ڈاکٹرز کو ہاسٹل سے بے دخل کیا گیا تھا جب میں وہاں پہنچی تو بکتر بند گاڑیاں اور فورسز کی بھاری نفری وہاں موجود تھی اور ہاسٹل میں رہائش پذیر ہاؤس جاب ڈاکٹرز کا سامان روڈ پر بکھرا پڑا تھا اس سے متعلق میں نے گورنر بلوچستان سے بھی ملاقات کی تاہم افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ وائس چانسلر نے طلبہ سے متعلق جو نازیبا الفاظ استعمال کئے ہیں انہیں میں یہاں بیان نہیں کرسکتی۔
انہوں نے اے سی کوئٹہ کی جانب سے ہاسٹل میں رہائش پذیر طلبہ کے ساتھ اختیار کئے گئے رویئے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اے سی کا رویہ غیر مناسب تھا۔ جب ذمہ دار شخص کی جانب سے طلبہ کانام کالعدم تنظیموں اور دہشت گردوں کے ساتھ ان کا نام منسلک کیا جائے تو ایسے ماحول میں ہماری بچیاں کیسے تعلیم حاصل کرسکتی ہیں۔ انہوں نے محکمہ تعلیم میں ہونے والی تعیناتیوں پر بھی ایوان میں اپنے تحفظات کااظہار کیا۔
صوبائی وزیر سماجی بہبود میر اسداللہ بلوچ نے پوائنٹ آف آرڈر پراظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں ہماری روایات باقی صوبوں سے مختلف ہیں پسماندہ صوبے میں چھ سو کلومیٹر دور سفر کرکے ہماری بچیاں اور بچے تعلیم حاصل کررہے ہیں انکے ساتھ اچھا برتاؤ اور انکی اخلاقی حوصلہ افزائی ہماری قومی اقدار اور اخلاقی ذمہ داری ہے۔
انہوں نے کہا کہ بچیوں کو رات کی تاریکی میں ہاسٹل سے بیدخل کرکے انکی تذلیل کرنا قابل مذمت ہے،اپنے بچیوں کا دفاع کرنا جانتے ہیں غلط عمل میں جو بھی ملوث ہو اس کیخلاف کارروائی ہونی چائیے۔
انہوں نے کہاکہ ہاؤس آفیسر ڈاکٹرز کیساتھ پیش آنیوالے واقعہ کی تحقیقات کیلئے حکومت اور اپوزیشن اراکین پر مشتمل پارلیمانی کمیٹی قائم کیاجائے۔