اب کچھ کہنے کی ضرورت نہیں – گہرام اسلم بلوچ

390

اب کچھ کہنے کی ضرورت نہیں

تحریر: گہرام اسلم بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بغیر کسی تمہید کے اپنے بات کا آغاز اپنے اردگرد کے حالات و واقعات سے کرتا ہوں کہ جہاں میں پیدا ہوا ہوں اور یہاں کے ہر حالات کا میں خود چشم دیدی گواہ بھی ہو۔ عموماً انسان کسی معاشرے کے حوالے سے جب بات کریں گے تو سیکینڈری ڈیٹا کے ذریعے ریفرنس دیتے ہیں، وہ بھی اپنی جگہ بے حد ضروری ہے کیونکہ ہر جگہ ہر بندہ جا نہیں سکتا۔ میں یہاں کسی ٖغیر مستند رائیٹر کا حوالہ دیئے بغیر خود اپنے معاشرے بلوچستان کے زمینی حقائق سے دوسروں کو بتانے کی کوشش کرونگا، جب سے ہم نے اپنے سماج میں اپنی آنکھیں کھولیں ہیں تو یہی دیکھتے اور سہتے آرہے ہیں۔ جو چیز ہم خود محسوس کرتے آرہے ہیں، وہ ہم سے زیادہ اور کوئی شاید بیان نا کرسکے کیونکہ جہاں آگ لگے دھواں وہاں سے اٹھتا ہے۔ احساس ضرور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر دنیا کے دیگر انسان دوست کو اسکا شدت سے ہو۔ مگر آج کا معاشرہ بھی اب وہ سماج نہیں رہا، انسان انسان کا دوست و ہمدرد ہو ا کرتا تھا، اب ہر انسان دوسرے کے خون کا پیاسا ہے، ان رویوں اور نظام کے خلاف انسان نے اپنے عظیم تر مفادات کی خاطر سوچنا ہوگا۔

احساس کا کوئی مذہب، یا کسی قوم، رنگ نسل ذات پات سے کوئی تعلق نہیں، انکا رشتہ باقائدہ ہر انسان کے ضمیر کیساتھ جُڑا ہوتا ہے، اب تک سائنس اور ٹیکنالوجی نے ایسی کوئی میڈیسن یا سوفٹویئر نہیں بنایا ہے، جس سے انسان کے اندر کے ضمیر کو جگا دے، اسکا دارو مدار یا کنٹرول بھی اب تک کسی زمینی آقا کے تابع نہیں ہے۔

میرا یہاں کہنے کا ہرگز مقصد یہ نہیں ہے کہ اسوقت اس فیڈریشن کے اندر بلوچ کے علاوہ باقی مظلوم نہیں ہیں، یہاں سندھی، پنجابی، پشتو، سرائیکی بھی اپنے قومی سوال اور شناخت کے بحران کا شکار ہیں۔ مسئلے کی افتتاح بھی شناخت سے ہوا ہے اور انکا اختتام بھی شناختوں کو تسلیم کئے بغیر ممکن نہیں ہے۔

ہم سے پہلے ہمارے بزروگوں نے بھی اسی نظام کے اندر اپنی آنکھیں کھولی ہیں اور ہم بھی اسی معاشرے کے ہر ظلم نا برابری کے ستائے ہوئے گواہ ہیں۔ میں نے آج تک کسی سے یہ تصدیق نہیں کرائی کے واقعی کسی کے ساتھ ایسا کچھ ہوا ہے بلکہ میرا یقین اسی پہ ہے کہ جس کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہ سب کیساتھ ہو رہا ہوگا کیونکہ ظلم کا بھی کسی نسل سے تعلق نہیں ہوتا، انکے لیئے سب برابر ہیں، وہ برابری کی بنیاد پر سب کو ایک ہی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ اسکا ہدف انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی ہوتا ہے، وہ ایک ذات کو نہیں پوری نسل کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ انکا کوئی سرحدبھی نہیں ہوتا۔ آج یہاں کل وہاں بھی ہوسکتا ہے۔ تو بہتر یہی ہوگا کوئی اپنے باری کا انتظار کیئے بغیر صحیح موقعے پر حالات کا ادراک کرے اور ہمدرد بنیں شاید انہی میں سے کوئی کل آپکا ہمدرد و آواز بن سکے۔

مجھے آج تک کسی نے یہ بھی نہیں کہا کہ اسوقت ہمارے معاشرے میں ایسے گھر بھی ہیں کہ جہاں چولہا نہیں جلتا، معصوم بچے اور بے سہارہ، اماں، ابا اسی بھوک و مفلسی کو اپنا مقدر سمجھتے ہیں۔ بچے بوڑھے پا برہنہ ہونا کوئی انوکھی بات ہوگی بلکہ مجھ سمیت بے حساب ایسے لوگ ہوں گے جو اس کرب سے گذر رہے ہوں گے۔ مجھے کوئی کہے یا نا، مجھے اس بات کا خود علم ہے کہ ہزاروں بچے بچیاں اپنے محلے کے ان ہمسروں کو صبح سکول جاتے ہوئے جب دیکھتے ہونگے تو اُن پہ کیا بیت رہا ہوگا، جو وہ اپنی خوابوں کو تعبیر نہیں کرسکتا۔

اب کسی کو عالمی میڈیا سے اس خبر کی تصدیق نہیں کرنا ہے کہ کن کن محلوں میں بزرگ اپنے پیاروں کے انتظار میں ہیں، ماما کی طویل انسان دوست جدوجہد نے تاریخ کے اوراق میں انمٹ نقوش رقم کی ہے۔ اب کسی کے سامنے اپنی پسماندگی کو بیان کرنے کے لیے رونے کی ضرورت نہیں ہے، سوئی سے نکلنے والی گیس نے پورے ملک کو آسودہ و خوشحال کردیا ہے مگر وہاں کے باسی اب بھی لکڑی کاٹتے ہیں، یہ روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔ ستر سال تک صوبے کا ایک ہی پبلک یونیورسٹی اور میڈیکل کالج کا سب کو علم ہے۔ بس اور کیا ہوسکتا ہے اس نابرابری اور مفلسی، ہم سب مظلوموں کا مشترکہ مسئلہ ہے، اس کے لیئے جدوجہد کے میدان میں پرامید و پر عزم ہوکر اس سماج کے جوانوں کو یہ احساس دلانے کی راہ میں نکلیں گے کہ آپکا کوئی متبادل نہیں ہوسکتا۔ اب اس رات کی تاریکی میں اپنی داستان حسرت کو سُنانے کے سوا اور کچھ نہیں کر سکتے، چلو اب آپ کچھ اپنا سُناو اور کچھ ہم اپنا بتائیں گے تاکہ سورج نکلے اور روشن مستقبل کے خواں پھر اپنی سفر شروع کریں


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔