بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے احتجاج کو 3722 دن مکمل ہوگئے، نوشکی سے سیاسی و سماجی کارکن محمد عیسیٰ اور عامر بلوچ نے کیمپ کا دورہ کرکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے اس موقع پر کہا کہ انصاف کی تعریف ہرگز یہ نہیں کہ ظالم کو مظلوم کے پیٹھ پر کوڑے برسانے کا قانونی حق حاصل ہو اور مظلوم کو سرجھکاکر انسانیت سوز مظالم کو خندہ پیشانی سے سہنے کا سند عطا ہو، تشدد کی تعریف اس سے بڑھ کر اور کیا ہوسکتی ہے کہ مظلوموں کو اپنے قانون اور اصولوں کے مطابق پرامن جدوجہد کا بھی حق نہیں کہ وہ ظلم و بربریت کو آشکار کریں یہ دوہرا معیار زندگی فطری نہیں اور نہ ہی مظلوم اور ظالم ہونا فطری عمل ہے، آج مظلوموں کے پاس جو تصور لاپتہ افراد کی بازیابی موجود ہے وہ انہی ظالموں کے لغت کی اختراع ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر ظالم و مظلوم میں سے کسی ایک کو زندہ رہنا پڑا تو مظلوم پر لازم ہے کہ وہ مرجائے اور ظالم زندہ رہے، پوری انسانی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ دنیا کی تعمیر و ترقی اور اس کی تشریح کے لیے مظلوموں نے اپنے خون سے دھویا ہے مگر یہ دنیا اب بھی ظالموں کے قبضے میں ہے۔
ماما قدیر نے کہا کہ بلوچ قومی شعور کو کچلا جارہا ہے جس طرح کل بنگلہ دیش میں بنگالی قومی شعور کو کچلا گیا تھا، عمل اور رد عمل کے طور پر کل جو نتیجہ بنگالی قوم کے لیے نکلا تھا آج وہی نتیجہ بلوچ قوم کے لیے بھی نکلے گا کیونکہ کل بھی یہی ہاتھ تھے، لاٹھی بھی یہی تھا، عالمی سرمایہ دار سیکورٹی اسٹیٹ بھی یہی تھے۔ اقوام متحدہ بھی یہی تھا، انسان اور انسانی حقوق بھی یہی تھے، صرف قیادت اور وقت میں فرق ہے۔