سیاسی رہنما ء محمدانور بلوچ ایڈوکیٹ نے کہا ہے کہ ستر سالوں سے پنجابی سامراج کی بلوچ قوم کے ساتھ رویہ کو مد نظر رکھتے ہوئے یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ پنجابی سامراج بلوچ قوم کا کھبی دوست اور خیرخواہ نہیں ہو سکتا
اسلئے حجت ہوگا کہ پاکستانی پارلیمانی سیاست میں وقت ضائع کرنے کے بجائے حقیقی قوم پرستانہ کی طرف توجہ دے کر حق خودارادیت یعنی آزادی کو قو می مقصد بنا کر پنجابی سامراج سے چھٹکارہ حاصل کرنے کیلئے اپنی جدوجہدجاری رکھنا چائیے کیونکہ پاکستانی ریاست سرمایہ داری،جاگیرداری اور نام ونہاد جمہوری ریاست ضرور ہے مگر حقیقت تو یہ ہے اس ریاست کے خفیہ پالیسی جمہوریت میں سرمایہ داریت اور مادیت پسندی کے ساتھ توسیع پسندی بھی ہے
اسی پالیسی کے تحت پنجابی سامراج دوسرے قوموں کو غلام بنا کر اْنکی وسائل کو لوٹ مار کر کے اْنکی قومی خود مختاری ،سیاسی اقتدار ،آزاد معیشت اور ثقافت کا خاتمہ کر کے قومی وجود کو ہمیشہ کیلئے مٹا دینا چاہتاہے سامراج سے بہتری اور رحم کا توقع نہیں رکھا جا سکتا اور نہ ہی قو موں کیلئے اْنکے دل میں رحم اور ہمدردی کی گنجائش ہوتی ہے بلکہ وہ ہمیشہ اپنے طاقت کو بڑانے اور حکمرانی کی بالادستی کیلئے سوچھتا ہے کیونکہ سامراجیت ہے ہی ان پڑھ اور جاہل بادشاہوں کا پیداوار ہے بر صغیر میں مغل سامراج بادشاہ جلاالدین محمد اکبر کی ظالمانہ واقعات ،بے رحمانہ سلوک اور خوفناک جنگیں دنیا میں انوکھا مثال رکھتے ہے
اسلئے پنجابی سامراج مغل سامراج اور برطانیوی سامراج کی سامراجی اصولوں پر چلتے ہوئے بلوچ اور سندھی قوم کے ساتھ وہی سلوک کر رہا ہے جو سامراج کر تے چلے آرہے ہیں اس جاہلانہ پالیسی کے خلاف صرف بندوق کافی نہیں ہوتا البتہ بندوق آزادی کا ایک ذریعہ ضرور ہے مگر مکمل ضمانت نہیں
اسلئے بلوچ اور سندھی قوم کو یہ نہیں بھولنا چائیے کہ پاکستانی ریاست اپنی ریاستی مفادات کیلئے دہشت گردی کے ذریعے کسی بھی حد تک جا سکتی ہے لہذا آزادی کیلئے حق خودارادیت کو غیر پارلیمانی جدوجہد کیلئے بنیادی ترجیح حاصل ہونا چائیے جیسا کہ پاکستان کا مستقل مندوب ملیحہ لودھی نے جنرل اسمبلی میں خطاب کے دوران دہشت گردی اور حق خودارادیت میں فرق کو واضح کر کے کشمیر اور فلسطین کی حق خودارادیت کی جاری تحریکو ں کا دفاع کرتے ہوئے زور دینا ہے کہ دیرینہ حل طلب تنازعات اور حق خودارادیت سے محروم رکھے جیسے مسائل پر توجہ دی جا نا چائیے لیکن وہاں جنرل اسمبلی میں بلوچ اور سندھی حق خودارادیت بارے خاموشی دونوں قوموں کیلئے اپنے جدوجہد پر نظر ثانی کرنے کیلئے ایک پیغام ہے جس پر غور کر نا وقت کے تقا ضوں کے مطابق ہے اور پاکستان کیلئے چیلیج ثابت ہوگا ۔