بلوچستان میں جبری گمشدگیاں دنیا کیلئے لمحہ فکریہ ہونا چاہیئے – بی ایس او آزاد

155

‎بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی ترجمان نے جبری گمشدگیوں کے عالمی دن کے مناسبت سے بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں لاپتہ افراد کا مسئلہ سنگین ہوتا جا رہا ہے اور جبری گمشدگیوں کے واقعات مسلسل سامنے آرہے ہیں جن میں سیاسی کارکن ،طلباء، انسانی حقوق کے کارکن، وکلاء، اورصحافی شامل ہیں۔

‎ترجمان نے جبری گمشدگیوں کے عالمی دن کے مناسبت سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جبری گمشدگی بین الاقوامی قانون کے مطابق ایک سنگین جرم ہے۔ اس جرم کے خلاف 20 دسمبر 2006 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی جانب سے ایک قانون منظور کر لیا گیا ہے۔ جومتاثرہ لواحقین کو اپنے پیاروں کی گمشدگی کے بارے میں حقیقت جاننے، انکی تلاش اور ان کا سراغ لگانے کا حق فراہم کرتا ہے۔ اگر ایسی گرفتاری، تحویل میں لینا یا اغوا کرنا یا کسی شخص کو آزادی سے محروم کرنا جو کہ ریاست کی ایجنسیوں یا براہ راست فوج کی طرف سے ہو اور اس کے نتیجے میں اس شخص کے بارے میں معلومات کسی کو بھی میسر نہ ہوں اور وہ شخص قانون کے دائرہ کار سے بھی باہر ہو یہ جبری گمشدگی کہلاتی ہے۔ کنونشن کے مطابق جبری گمشدگی کو کسی بھی قسم کے حالات چاہے حالت جنگ ہو یا جنگ کا خطرہ ہو، اندرونی سیاسی عدم استحکام ہو یا ایمرجنسی نافذہو ان میں سے کسی بھی چیز کو بنیاد بناکر جبری گمشدگی کو درست قرار نہیں دیا جا سکتا۔

‎کنونشن ریاست سے یہ بھی کہتا ہے کہ وہ لاپتہ ہونے والے شخص کے خاندان یا اس کے وکیل کو اس شخص کے مقام قید، وقت قید، گرفتار کرنے والی اتھارٹی کے بارے میں معلومات دے اسے اور یہ بتایا جائے اگر وہ شخص قید کے دوران مر جائے تو اس کی موت کی وجوہات، حالات اور اس کی لاش کے بارے میں بتایا جائے۔

‎اس کنونشن کے مطابق روز اول سے ہی بلوچستان میں ریاست اور اس کے انٹیلیجنس ایجنسیوں نے غیر قانونی طور پر سیاسی کارکنان، طلباء، اساتذہ، صحافی، ڈاکٹرز، وکلاء، دانشور اور انسانی حقوق کے کارکنوں سمیت تمام مکتبہ فکر کے لوگوں کو جبری گمشدگی اور تشدد کا نشانہ بنایا ہے جبکہ کئی کو حراست کے دوران قتل کیا گیا ہے اور اْن کے لاش پھینک دیے گئے ہیں۔

‎ریاست بلوچ سماج میں سیاسی شعور و آگاہی کو قدغن لگانے کی پوری کوشش کررہی ہے۔ سیاسی شعور و علم رکھنے والے لوگ بلوچ قوم کے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں اور ریاست نے اس کو کمزور اور ختم کرنے کے لئے ہر ممکن طریقہ اپنایا ہے۔

‎ترجمان نے آخر میں کہا کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی بدترین صورتحال دنیا کے لئے لمحہ فکریہ ہونا چاہیئے کیونکہ اس بحران کی لہر کے اثرات خطہ اور اقوام عالم کے مستقبل کے لئے باعث خطرہ ہیں۔

‎عالمی اداروں کو چاہیئے کہ وہ ریاست کو اس امرکا پابند بنائیں کہ وہ عالمی کنونشن کے مطابق جبری گمشدگیوں کو سنگین جرم قرار دے اور اس میں ملوث عناصر کیلئے کڑی سزائیں مقرر کریں۔ اس طرح کے اقدامات کئے بغیر جبری گمشدگیوں کو روکنا مشکل ہے ۔