قومی غدار – الیاس بلوچ

438

قومی غدار

تحریر: الیاس بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

جب سے انسان اس دنیامیں آیا ہے اسی دن سے اپنی بقاء اور ترقی کیلئے محنت کرتا آرہا ہے۔ انقلابی جہد ہمیشہ انسانی فطرت میں رہاہے، اپنے اندر اور اپنے سماج میں مختلف ذرائع استعمال کرکے تبدیلیاں انقلابی صورت میں لائی گئی ہیں ارتقائی عوامل کی وجہ سے انسان مختلف سماجوں کا حصہ بنا ہوا ہے اور ہر سماج اپنے جغرافیائی اور ثقافتی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے ترقی کیلئے اپنے وسائل استعمال عمل میں لا رہاہے۔

اسی طرح بلوچ قوم اپنے سماجی، ثقافتی اور جغرافیائی اہمیت کو برقرار رکھنے کیلئے جہد مسلسل اپنے نام کر چکی ہے اور دو دہائیوں سے اپنی شناخت اور کلچر اور جغرافیہ کو زندہ رکھنے کیلئے سامراجی قوتوں کے ساتھ نبردآزما ہے۔ بلوچستان جو بلوچ قوم کی وراثت ہے جو بلوچ کو عظیم جہد کاروں کی جہد و جہد کے بعد حاصل ہوا ہے۔ بلوچستان کی جغرافیائی اہمیت کو دیکھ کر مختلف سامراجی قوتوں نے بزور طاقت بلوچ سرزمین پر قبضہ کیا ہے اور آج پاکستان اور ایران جیسے سامراج کی شکل میں یہ قبضہ گیریت برقرار ہے۔

1948 میں جب پاکستان نے بلوچ سرزمین پر طاقت کی زور پہ قبضہ کیا تو بلوچ قوم اسی دن سےسیاسی اور مزاحمتی شکل میں آزاد بلوچستان کی بحالی کیلئے کوشاں رہاہے۔ اور یہ جہد مختلف ادوار میں مختلف شکلوں میں جاری رہاہے اور ہر دور میں بلوچ قوم پاکستان کی ناپاک عزائم کو شکست دیتے آرہا ہے۔ لیکن علاقائی غدار ہمیشہ لالچ لیکر شاہراہ آزادی کے سامنے رکاوٹ بنی ہیں۔ جب بابو نوروز کی جہد عروج پر تھی تو آج کے قومی غدار ثناء اللہ زہری کے والد دودا خان نے اپنے آقا کو خوش کرنے کیلئے بابوروز کو قرآن مجید کا واسطہ دے کر جنگ بندی کروایا اور بابو کو پاکستان کی فوج نے گرفتار کرکے تاحیات قید کر دیا اور بعدازان جیل میں اُس کی موت واقع ہوئی۔

اسکے بعد جب 1970 میں تحریک ایک بار پھر سے اپنے عروج پر تھا تب بھی نام نہاد قوم پرستوں سمیت غداروں نے آزادی کی تحریک کے سامنے رکاوٹ کی پہاڑ کھڑی کردی۔ اور آزادی کی تحریک سرد مہری کا شکار ہو گئی۔ انکے پیروکار آج بھی ان نام نہاد قوم پرست ، گل خان نصیر، غوث بخش بزنجو اور دیگر سودا گروں کی مسلط کردہ غلامی کو اپنانے کی حتی الوسع کوشش کررہے ہیں۔ جسکی واضح مثال نیشنل پارٹی ہے۔ نیشنل پارٹی بظاہر تو خود کو قوم پرست سمجھتا ہے لیکن اسکی ہر عمل سے بلوچ قومی تحریک اور بلوچ قوم اثر انداز ہو رہاہے۔

لیکن گذشتہ دو دہائیوں سے جدوجہد ء آزادی بہت ہی شدت اپنا چکا ہے۔ ہر گھر سے ہر گدان سے لوگ جوق درجوق کاروان ء آذادی میں شامل ہوکر بلوچستان کی مکمل آزادی کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں اور اور ناپاک ریاست اس جہد کو کاونٹر کرنے کیلئے اپنا ہرحربہ استعمال کرچکا ہے لیکن ناکامی اسکی مقدر بن گئی ہے۔ اور اپنے ناکام روایت کو برقرار رکھتےہوئےمختلف نام نہاد قوم پرست جماعتوں اور غداروں کو استعمال کرکے جہد کو ناکام کرنے کی ناکام کوشش کررہی ہے۔

لیکن،جو آج کی تحریک ہےوہ ایسے نام و نہاد قوم پرستوں، سرکاری سرداروں، نوابوں اور ٹکریوں کی ہاتھ سے مکمل نکل چکاہے۔ لیکن تحریک کو مزید مظبوط اور منظم بنانے کیلئے ان غداروں کو سزا دینا وقت کی تقاضہ بن گیا ہے۔ ان کو سزا وار بنا کر دوسروں کیلئے انہیں عبرت کا نشان بنانا ہوگا تاکہ کوئی بھی مفاد پرست قوم سے غداری کرنے سے پہلے یہ ضرور سوچے کے اس کا انجام کیا ہوگا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔