نفسیات غلامی – زیرک بلوچ

406

نفسیات غلامی

تحریر: زیرک بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بحیثیت غلام قوم جذباتی نعروں سے کبهی ہم نے خود کو بامِ عروج پہ پایا اور دشمن کو اپنے آپ سے کمزور تر تصور کیا اور آج بهی جب جذبات ہمارے ذہن پہ حاوی ہوجاتے ہیں تو یہی خیال کرتے ہیں کہ ہم عروج پہ ہیں اور ہمارا دشمن جس سے ہم برسرِ پیکار ہیں،  اسے کمزور تر تصور کرتے ہیں۔

انسانی دماغ کی سب سے بڑی کمزوری جو ہمیں دیکهنے کو ملتا ہے یہی ہے کہ جب وہ کهلی فضا میں خود کو پاتا ہے تو خود کو سپر مین تصور کرتا ہے، ہم خود کو ماضی کے حسین مزاروں میں تصور کرتے آئے ہیں۔

جب ہم دشمن کے آمنے سامنے آتے ہیں تو یہ خیال بجا لاتے ہیں کہ دو یا تین سپاہی مار کر ہم جنگ جیت گئے جبکہ یہ سپاہی لائیں گئے ہم مروانے کے لئے حالانکہ دونوں فریقین کے درمیاں یہ بات روز اول کی طرح عیاں ہے کہ جنگیں خونی ندیاں بہاتی ہے، ہم نے جنگ کا حقیقی چہرہ ابهی تک دیکها بهی نہیں،  ہم جس آزادی کی بات کرتے ہیں اس آزادی کا سب سے ہم مقصد ہمارا شناخت کا ہے ناکہ ساحل و وسائل کا ، ہمارا شناخت ہماری زمین سے جڑا ہے ناکہ گوادر و چاغی کے  وسائل سے،  قوموں کی بیداری میں سیاسی حلقوں کا سب اہم کردار ہوتا ہے، اگر سیاسی حلقے خواہ وہ طلبا سیاست کی شکل میں ہو یا قومی تحریک کی شکل میں،  آزادی کی معنی کسی ایک فرد سے نہیں جڑی ہوئی ہے،  بلکہ پورے قوم سے ہیں۔

فردی آزادی کا تصور ہی ناممکن ہے کیونکہ فرد کبھی کسی بھی perceptive سے خود کو آزاد تصور نہیں کرسکتا،  وہ ہر قدم پہ خود اپنے آپ کے سامنے bearer بن جاتا ہے
ہمارا قومی تحریک جو آج بین الاقوامی سطح پر ایک محاذ کے نام سے آشکار ہوچکا ہے، جہاں شہیدوں کی جدوجہد نے آج پورے علم کو بیدار کیا اس آزادی کے جنگ میں قوم کا ہر فرد بلواسطی و بلاوسطہ ملوث ہی ہے، اور یہی دشمن بهی تصور کرتا ہے،  دشمن تعلیمی اداروں میں چھاونی بناتا ہے تو ڈرتا ہے کہ کئی تعلیمی اداروں میں تعمیری سوچ جنم نہ لیں کئی کوئی پهر سے آزادی کی بات نہ کریں ہر آنے جانے والے طالب علم کو آنکھیں اسی لئے دکهاتا ہے کہ اس کے دل میں خوف پیدا ہوسکے، بندوق کی نمائش کرکے ہر فرد کو اپنی طاقت دکھانے کی کوشش کرتا ہے، قدم قدم پہ چوکیاں تعمیر کرتا ہے کہ انکا آپس میں کوئی روابط نہ بن سکیں، وہ کتابوں سے ڈرتا ہے وہ قلم سے ڈرتا ہے. دوسری جانب نیو نوآبادیاتی تعلیمات کے ذریعے غلام قوم کے ہر فرد کے لئے مصنوعی نیچر بهی ترقی کرتا ہے تاکہ ہر طالب علم خواہ وہ کسی بهی جنگ زدہ علاقے سے تعلق رکهتا اسے نام نہاد فردی آزادی و عیاشی میسر ہو ۔

کسی نے خوب کہا تها ” کسی قوم کو تباہ و برباد کرنے چاہتے ہو تو اس قوم میں عیاشی کو عام کرو”۔

اس بے معنی فردی آزادی کو تقویت بهی دیتا رہتا ہے تاکہ ہر فرد خود کو جسمانی و ذہنی طور پر آزاد تصور کرسکے اور یہ آزادی اس فرد کے لئے نیچرل دباو بن سکے اور اپنے قومی مزاج کو ٹھکرا دے جو اسے بلوچیت کے نام سے ملی ہیں ۔

قومی مزاج ختم کرکے ہی دشمن غلام قوم کے ہر فرد کے اندر اپنے مزاج کو ڈالنے کی کوشش کرتا رہتا ہے تاکہ اس مزاج کا جس کا تعلق زبان، کلچرل، سماج و تہذیب سے ہے خاتمہ ہوسکے۔

ہمارے سیاسی جماعتوں کا سب سے اہم مقصد ہہی ہونا چاہیے کہ سیاسی شعور کو ہر عام و خاص میں پهیلانے کی ہر ممکن کوشش کی جائے تاکہ آنے والے نسل کو اس بات کا یقینی علم ہو کہ ماضی میں کچھ کیا گیا تها ایک مقصد کے لئے ، کیونکہ سیاست کے لوح سے ہی آزادی کا چراغ روشن ہوگا ۔

سیاسی پختگی سیاسی و شعوری بالیدگی تک پہنچ سکتا یے جہاں اک تعمیری سوچ کا آغاز ہوگا آج ہم شخصیت پرستی کی بنیاد پر آزادی کی بات نہیں کرتے آج ہم کسی تنظیم کو کسی فرد کا میراث تصور نہیں کرسکتے کیونکہ ہر تنظیم کا بنیادی مقصد و منشور ہہی ہے کہ قومی بیداری میں ایک اہم کردار ادا کریں ایک مخلص لیڈر کے پیدا ہونے کی گنجائش ہوسکے آنے والے نسل کے لئے ایک سبق دے سکیں،
کسی بهی تنظیم کی فردی غلطیاں آنے والے نسل کے لئے سزا بن کر ابھری گی۔

ماضی میں جب ہر گلی و کوچے میں آزادی کی صدائیں بلند کررہے تهے اس وقت اس خیال سے لاتعلق ہی تھے کہ کل شاید یہ ممکن نہ ہو ہر فرد کو جذباتی بلیک میلنگ کی بنیاد پر سیاسی محاذ پر جگہ دے رہیے تهے ،جبکہ دشمن کا کام آسان سے آسان تر ہوتا جارہا تها آج جب کوئی قومی سیاست کا نام لینے سے بهی ڈرتا ہے آج بهی هم وہی غیر سیاسی رویے لے کے دانستہ طور پر نادانستگی کا مظاہرہ کررہے ہیں۔

آج هم خود کو انسان  سے سوشل میڈیا نما جانور تک لے کر آئے ہیں جب کہ یہ بات سب پہ عیاں ہے۔

آج کی ضرورت کو زیادہ ضرورت تصور کرکے ہم اپنا وقت ایسے کاموں میں زوال کررہے جنہیں کرنا نہیں چاہئے. آج ہر فرد کی ضرورت یہی ہے کہ وہ چیزوں کو reasonably و rational بنیاد اپنے بحث و مباحثہ کا حصہ بنائے ناکہ جذباتی طور پر اگر آج بهی ہم نے وجوہات کی جگہ جذبات کو دی تو کل آنے والا نسل ہم سے یہی پوچھے گا کہ ہم نے سیاسی سیاسی کو صرف اپنا سمجها ناکہ آنے والے نسل  کا۔


ی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔