مسخ شدہ لاش کو شناخت کے بغیر دفنانا ملکی قوانین کی خلاف ورزی ہے – وی بی ایم پی

183

کوئٹہ پریس کلب کے سامنے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے احتجاج کو 3668دن مکمل ہوگئے۔ موسی خیل سے وحید کاکڑ،بھاگ سے بی ایس او پجار کے کارکنان اور کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے رہنماؤں و کارکنان نے کیمپ کا دورہ کرکے لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔

کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان مرکزی سیکرٹری جنرل امداد قاضی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم فاشسٹ ریاست کے شکار ہونے والے سندھ، بلوچستان، خیبرپختونخواں کے ان افراد کو بھول نہیں سکتے ہیں جنہیں شہید کیا گیا، بہت بڑی تعداد میں لوگوں غائب کیا گیا ہے جن کا کچھ پتہ نہیں ہے اور اس حوالے سے ہم ہر جگہ پر آواز اٹھاتے رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ میں بذات خود کمیونسٹ پارٹی کے بین الاقوامی سماعتوں میں شریک ہوا ہوں جو ویتنام، ماسکو اور ایتھنز میں ہوئے ان تینوں اجلاسوں میں میں نے بھرپور طور پر اس حوالے سے بات کی اور دنیا بھر کے کمیونسٹ پارٹیوں کو اس حوالے سے بتایا، ہم نے کہا کہ جس طرح پولینڈ میں، لتھوانیہ، یوکرائن اور دیگر جگہوں پر کمیونسٹیوں کے زیادتیاں ہورہی ہے انہیں لاپتہ کیا جارہا ہے، پارٹیوں پر پابندی لگائی گئی ہے بلکل اسی طرح بلوچستان میں جو حقیقی قوم پرست قوتیں ہے جو ریڈیکل، انقلابی جدوجہد کررہے ہیں ان کے ساتھ وہی سب ہورہا ہے جبکہ کمیونسٹ پارٹی بین الاقوامی اداروں میں بلوچستان کے مسئلے کے حوالے سے بات کرتی رہی ہے اور کرتے رہینگے۔

انہوں نے کہا کہ ہم پاکستانی ریاست کو کہنا چاہتے ہیں کہ بلوچوں کا پہلا رشتہ پاکستان سے ہیں، ان کا رشتہ ایران یا ہندوستان، افغانستان اور امریکہ سے نہیں ہے وہ پاکستان کے بچے ہیں اور پاکستان ان کا ہے۔ پاکستان کے جتنے ریسورسز ہے سب بلوچستان میں موجودہے جبکہ پاکستان میں سب سے زیادہ غربت اور مفلسی بلوچستان میں پائی جاتی ہے تو پھر وہ آواز ہی اٹھائینگے۔

وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں ریاست کی خونی آپریشن اپنی تمام تر سفاکیت اور ہولناکیوں کے ساتھ جاری ہے، بلوچستان کا کوئی کونہ، کوئی گھر نہیں بچا جہاں پاکستانی فورسز نے اپنی بربریت کی صورت کشی نہ کی، 47ہزار کے قریب بلوچ افراد جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں جولاپتہ ہے اور ریاست کے عقوبت خانوں میں غیر انسانی، غیر اخلاقی اذیت کا شکار ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہاں پرامن جدوجہد پر پابندی عائد کی گئی ہے، سیاسی کارکنان، دانشور اور ادیبوں سمیت ہر طبقہ فکر کو ریاست کی بربریت کا سامنا ہے، بلوچ کے لیے عرصہ حیات مکمل تنگ کردی گئی ہے۔

دریں اثنا وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے سماجی رابطوں کی ویب سائیٹ ٹویٹر پر بلوچستان کے ضلع نوشکی سے ملنے والی لاش کے حوالے سے کہا گیا کہ گذشتہ رات نوشکی سے برآمد ہونے والے مسخ شدہ لاش کو شناخت کے ذرائع استعمال کیئے بغیر دفنانا ملکی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ مسخ شدہ لاشوں کے شناخت کی تمام ذرائع استمعال کیئے جائے تاکہ لاش ان کے لواحقین تک پہنچ سکے اور متاثرہ خاندان زندگی بھر کی اذیت سے نجات پاسکے۔

تنظیم کی جانب سے اس حوالے سے مزید کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ نے مسخ شدہ لاشوں کے حوالے سے وی بی ایم پی کی درخواست پر حکم صادر فرمایا کہ جس بھی ایریا سے کوئی مسخ شدہ لاش ملے تو حکومت اس کی شناخت کے تمام ذرائع استمعال کرے، بصورت دیگر سپریم کورٹ کے حکم کی توہین تصور کی جائیگی اور سپریم کورٹ حکومت کے خلاف قانونی کاروائی کرسکتی ہے۔