بلوچستان کا خاموش قاتل ۔ مزار بلوچ

302

بلوچستان کا خاموش قاتل

تحریر۔ مزار بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

22 مئی کو راسکوہ اور گرد نواح کے بلوچ دن بھر کے محنت مزدوری کے بعد اپنے گھروں سورہے تھے کہ آدھی رات کو قابض ریاستی فوج نے انکے گاؤں اور گلیوں کو محاصرہ میں لے لیا اور اعلان کیا کہ جو بھی گاؤں سے باہر نکلے گا، اسے گولی مار دی جائے گی۔ محکوم بلوچ حیرانی و پریشانی کے عالم میں اپنے گھروں میں محصور ہوگئے۔

تین دن تک اس علاقے میں محاصرے اور گھر گھر تلاشی کے بعد 25 اور 26 مئی کے دن تمام بلوچ مرد، عورت اور بچوں کو راسکوہ کے دامان میں خار دار تار کے باڑھ لگا کر اس میں قید کردیا گیا، معمولی بات پر لاٹھی چارج اور بلوچوں کو زود کوب کیا جانے لگا، حیران و پریشان فوجی پھیرے میں قید بلوچوں کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا ہونے جارہا ہے۔

27 مئی کو باڑھ تنگ کرکے پانی کی فراہمی بند کردی گئی، بھوک اور پیاس سے بلکتے بچے پاکستانی درندہ صفت فوج کے رحم و کرم پر تھے، بالآخر 28 مئی کا وہ قیامت خیز گھڑی آپہنچا، ظہر اور عصر کے درمیانی وقت باڑھ میں قید بلوچوں کو لگا کہ شاید کوئی زلزلہ آگیا ہے، ہر طرف دھند گردوغبار پھیل گیا، راسکوہ کا عظیم الشان پہاڑ کچھ دیر لرز نے کے بعد منہدم ہو گیا اس کے سیاہ مضبوط چٹان ٹوٹ پھوٹ کر سفیدی مائل رنگ اختیار کرگئے۔ راسکوہ کے کبوتر، مار خور، چکور، درخت اور چشمے ہمیشہ کے لیئے خاموش ہوگئے، ہر طرف موت کا سماء چھا گیا۔

کھڑے فصل اور درخت راکھ میں تبدیل ہوگئے لیکن دوسری طرف کھڑے قابض پاکستانی فوجی درندے بلوچوں کی اس بربادی پر ناچنے، گانے اور ایک دوسرے کو مٹھائی کھلانے لگے۔ قابض ریاست کے ہر علاقے میں بلوچوں کی اس تباہی پر جشن منایا جانے لگ، اگلے دن بلوچوں کو ڈرانے دھمکانے کے بعد انہیں ان کے گھروں کو جانے دیا گیا، جب بلوچ اپنے گھروں کو پہنچ گئے تو تمام گھروں کے سامان بکھرے پڑے تھے۔

تمام قیمتی سامان اور مویشی فوجی ساتھ لیتے گئے تھے، تین دن تک بلوچوں کے گھروں میں لوٹ مار قابض فوج نے کیا، وہاں سینکڑوں مویشی ذبح کردیئے گے تھے، ہر طرف کباب کے ٹکڑوں اور شراب کی بوتلیں بکھرے ہوئے تھے، جنہیں دیکھ کر سادہ لوحِ بلوچ دنگ رہ گئے کہ مذہب اور اسلام کا نعرہ لگانے والے پاکستانی درندوں نے ان کے علاقوں میں کیا کیا عیاشیاں کی ہیں اور جاتے ہوئے لوٹ مار کرکے سارا قیمتی سامان اپنے ساتھ لے گئے ہیں۔

بلوچ اپنے ماندہ جانور تلاش کرنے گئے جو پہاڑوں میں چرنے گئے تھے، جب وہاں انہوں نے دیکھا وہ تمام جانور مر چکے تھے، درخت راکھ بن گئے ہیں، چشمے سوکھ گئے ہیں، کچھ مویشی ایٹمی تابکاری کی وجہ سے تڑپ رہے تھے، انکے منہ سے خون اور جھاگ بہہ رہا تھا، وہ اپنے پیروں پر کھڑے نہیں ہوسکتے تھے، جب بلوچ وہاں سے مایوس ہوکر گھروں کو لوٹے تو دیکھا شیر خوار بچےاور بوڑھے دست اور اولٹیاں کررہے ہیں، وہ نہ کوئی چیز کھا سکتے نہ پانی پی سکتے تھے، تمام گاؤں والے ایک دوسرے کا حال پوچھنے گئے، ہر کسی کا درناک قصہ دوسرے سے مختلف تھا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔