سوئزرلینڈ کے دارلحکومت جنیوا میں ہونے والے ” فری بلوچستان” تشہیری مہم گذشتہ کئی دنوں سے پاکستانی میڈیا، پارلیمنٹ اور سیاسی پارٹیوں میں موضوعِ بحث بنی ہوئی ہے۔ ابھی تک درجنوں پاکستانی سیاست دان اسکے خلاف بیان دے چکے ہیں اور اسے قومی سلامتی کے خلاف سازش قراردیا ہے۔ کئی قراردادیں پاس ہوئیں ہے۔
” فری بلوچستان تشہیری مہم ” ہے کیا؟ یہ دراصل بلوچستان ہاوس نامی تھینک ٹینک جس کا تعلق خیربخش مری کے صاحبزادے بلوچ رہنما مہران مری سے بتائی جاتی ہے کی جانب سے جنیوا میں کرائے پر مختلف جگہوں پر بلوچستان میں ہونے والے انسانی حقوق کے خلاف ورزیوں کے بابت پوسٹرز آویزاں کرنا ہے اور اس بات کو واضح کرنا ہے کہ بلوچستان ایک آزاد ریاست تھا اور اب دوبارہ اپنی آزادی چاہتی ہے۔ یہ تشہیری مہم جنیوا میں ہونے والے انسانی حقوق کونسل کے چھتیسویں سیشن کے مناسبت سے منعقد ہوئی تھی تاکہ انسانی حقوق کے تمام الم برداروں تک آواز پہنچ سکے جو اس کانفرنس کے مناسبت سے جنیوا میں موجود تھے۔
اس تشہیری مہم کے علاوہ جنیوا میں بلوچ ریپبلکن پارٹی کے سربراہ اورسرکردہ رہنما براہمداغ بگٹی سمیت دوسرے بلوچ آزادی پسند تنظیموں کے نمائیندگان بھی متحرک رہے اور مختلف ایونٹس منعقد کرتے رہے۔ اس موقع پر امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی بھی بلوچ ریپبلکن پارٹی کے ایک سائڈ ایونٹ “انسانی حقوق: بلوچستان میں دو بھولے جانے والے الفاظ” میں شریک ہوئے۔
جنیوا میں ‘فری بلوچستان’ مہم کی کامیابی پر پاکستانی میڈیا سیخ پا تھی ہی اور جنیوا میں متحرک ان تمام بلوچ قوم پرست رہنماوں کے خلاف آگ برساتے رہے، مگر آج ریاست کی کوکھ سے جنم لینے والے ڈیتھ اسکواڈ اور شدت پسند مذہبی جماعتیں بھی نالاں نظر آئے جو بلوچ قوم پرست سیاسی کارکنوں کے اغواء و قتل میں شریک رہے ہیں۔ ۔
تفصیلات کے مطابق جنیوا میں گزشتہ دس دنوں سے جاری ‘فری بلوچستان’ کے تشہیری مہم کی کامیابی کے خلاف بلوچستان بھر میں ڈیتھ اسکواڈز سڑکوں پر نکل آئے۔
خضدار، تربت، ڈھاڈر، گوادر، حب اور گوادر میں سوئزلینڈ حکومت کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیئے گئے۔ ان مظاہروں کو فرنٹئیر کور کی جانب سے سیکورٹی مہیا کی جارہی تھی، جبکہ ڈیتھ اسکواڈ کے کارندوں نے ناکہ بندی کر رکھا تھا۔
خیال رہے اس قسم کی منظم احتجاجی ریلیاں وقتاََ فوقتاََ ڈیتھ اسکواڈز ایف سی کی قیادت میں نکالتے رہے ہیں، چند روز قبل بھی اس طرح کی ریلیاں امریکی صدر ڈانلڈ ٹرمپ کے خلاف نکالی گئیں تھیں، جب انہوں نے اپنے افغان پالیسی پر بیان جاری کیا تھا، اور اس سے قبل مبینہ بھارتی ایجنٹ کلبھوشن یادیو کے خلاف بھی انہی افراد نے ریلیاں نکالی تھی۔
یہ افراد کون ہیں اور ان ریلیوں میں شامل بچے اور بچیاں کہاں سے کیسے لائی جاتی ہیں اس حوالے سے دی بلوچستان پوسٹ نمائندے نے تحقیقات کے بعد اپنا رپورٹ جاری کیا ہے۔
ان ریلیوں میں شریک بڑی آبادی ان تعلیمی اداروں کے بچوں کی ہوتی ہے جو اس شہر میں واقع ہوتے ہیں، ڈانلڈ ٹرمپ ہو یا کلبھوشن یادیو یا پھر سوئز حکومت کے خلاف ریلی، ان سب میں زبردستی تعلیمی اداروں کے بچوں کو باقائدہ فوجی گاڑیوں یا پھر اسکول کی گاڑیوں میں بٹھا کر پوری سیکورٹی کے ساتھ ریلیوں میں شریک کیا جاتا ہے۔
آج ڈھاڈر میں گرلز اسکول کی ان بچیوں کو نفرت انگیز پوسٹر تھما کر خفیہ اداروں کی انعقاد کی گئی ریلیوں میں زبردستی شامل کیا گیا تھا جنکی عمر ابھی تک پریوں کی کہانیاں پڑھنے اور قلم تلوار سے طاقتور ہے کا سب سیکھنے کی ہے۔
چوتھی جماعت کی یہ بچیاں شاید پہلی مرتبہ کسی حسین حقانی و خان قلات کا نام سن رہی ہونگی ۔
ان بچیوں کو نا صرف نفرت انگیز پوسٹروں سے آشنا کرایا جاتا ہے بلکہ انکے شانہ بشانہ سینکڑوں معصوموں کے قاتلوں اور ڈیتھ اسکواڈ چلانے والوں کو بھی لاکھڑا کیا جاتا ہے۔
پنجگور شہر کو بندوق کے زیرِ عتاب رکھنے والوں نے بھی سوئزلینڈ کے خلاف ریلی نکالی، یہ پنجگور کے ڈیتھ اسکواڈ کے اہلکار ہیں جن کے ہاتھوں درجنوں معصوم شہری اغواء ہوئے ہیں اور کئیوں کی شہادت واقع ہوئی ہے۔ پنجگور ڈیتھ اسکواڈ پر نا صرف خفیہ اداروں کی دست شفقت ہے بلکہ مبینہ طور پر انکی قربتیں صوبائی وزیرصحت کے ساتھ بھی ہیں۔
سارے مظاہرے ڈیتھ اسکواڈ کے سربراہان کی قیادت میں ہوئیں جن میں سے چند ایک شاید ہی بلوچستان سے باہر کے لوگ جانتے ہوں مگر زکریا محمد حسنی نے اپنی بدنامی میں خوب نام کما رکھا ہے۔ زکریا حسنی نے بھی خضدار میں حسبِ معمول بھارت مخالف، اسرائیل مخالف اور بلوچ آزادی پسند مخالف بینر اٹھائے آر سی ڈی شاہراہ بلاک کردیا اور بیچ سڑک سوئزلینڈ کا جھنڈا جلا دیا۔
خیال رہے خضدار میں ہی زکریا حسنی کے ڈیتھ اسکواڈ نے ٹرمپ مخالف ایک ریلی نکالی تھی جس میں خضدار یونیورسٹی کے طالب علموں سے لیکر مڈل اسکولوں کے طالب علموں کو گاڑیوں میں بھر کر لایا گیا تھا، اسی ریلی کے گذر گاہ پر ایک دھماکہ ہوا تھا مگر دھماکے سے کوئی جانی و مالی نقصان نہیں ہوا۔
اگلے روز بلوچ مسلح تنظیم بلوچستان لبریشن فرنٹ نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ وہ یہ دھماکہ ریلی پر بھی کر سکتے تھے مگر عام عوام کی موجودگی میں انھوں نے ایسا نہیں کیا۔
خضدار ہو یا ڈھاڈر جہاں کہیں ایسی ریلیاں نکالی جاتی ہیں وہاں معصوم بچوں کو بطور ڈھال بنا کر ان ریلیوں میں شامل کیا جاتا ہے، اس سے قبل چودہ اگست کی ایک تقریب میں شامل کرنے کے لیئے آواران کے اسکولوں سے فوجی گاڑیوں میں قریباَ دو سو طالب علم اٹھا کر لے آئے تھے، جس سے کہ وہ دنیا کو دکھا سکتے تھے کہ عوام ہمارے ساتھ ہے، اور دوسری جانب بچوں کی موجودگی پر آزادی پسند مسلح تنظیموں کے حملوں سے بچنا مقصود تھا۔
فرنٹئیر کور کو ان نان اسٹیٹ ایکٹرز کے ہمراہ مظاھرے کرانے اور نابالاغ بچوں کو زبردستی اسکولوں سے لانے ، سرکاری ملازموں کو برخاست کرنے کی دھمکی دیکر ان جلوسوں میں شریک کراوانے کا مقصد یہ ظاھر ہوتا ہے کہ ریاستی خفیہ ادارے سوئس حکومت سمیت بیرون ملک یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ بلوچ اصل میں پاکستان کے ساتھ ہیں، لیکن شاید یہ بات تب سچ ثابت ہو جب بغیر زبردستی کے اور بغیر سیکیورٹی حصار کے لوگ یہ جلوس نکالتے۔ جس طرح بلوچ قوم پرست جماعتیں نکالنے میں کامیاب ہوتےہیں۔