بلوچستان میں کینسر ہسپتال کی ضرورت – اسد بلوچ

361

بلوچستان میں کینسر ہسپتال کی ضرورت

 تحریر- اسد بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

کینسر ہمارے ہاں تیزی سے پھیلتا ہوا ایسا مہلک مرض ہے، جس کے علاج کی استطاعت ہر خاص و عام کی نا بس کی بات ہے اور نا ہی بدقسمتی سے پورے بلوچستان میں کینسر کے علاج کے لیئے کوئی ایک ہسپتال قائم ہے۔ اس مہلک مرض کے شکار مریضوں کے لیے کراچی ایک واحد شہر ہے جہاں جانا پڑتا ہے۔ چوںکہ ہر کسی کا نہ وہاں پہ گھر ہے نہ ہر کوئی وہاں رشتہ دار رکھتا ہے کہ جن کے گھر ٹہرا جائے۔ اس لیے ہم بلوچستانیوں کو علاج کا خرچہ اٹھانے کے ساتھ رہائش کا الگ خرچہ کرنا پڑتا ہے۔

کینسر میں مبتلا چند لوگوں کے علاج کی خاطر مقامی سطح پر چندہ مہم سے کام چلایا گیا، جس کے وقتی طور پر بہتر نتائج تو نکلے مگر یہ مستقل حل نہیں ہے۔ کیوںکہ کسی مریض کے لیئے 70 یا 80 لاکھ چندہ اکھٹا کرنا ایک دو یا تین بار صحیح مگر بار بار ممکن نہیں ہے۔

اس لیے بلوچستان میں کینسر کے علاج کا ایک ہسپتال قائم کرنا یوں بھی ضروری بن چکا ہے کہ اب یہ مہلک مرض شدت سے پھیل رہا ہے، اس کی وجہ سے ہمارے کئی نوجوان جان سے گئے ہیں۔

بلوچستان گذشتہ کچھ عرصے سے انسانوں کی پیدا کردہ اذیتوں کے ساتھ کینسر جیسے موذی مرض کی اذیت کا بھی شکار ہے۔ ہر ضلع میں کینسر کے کئی مریض ہیں، جن میں بہت کم کو علاج کی سہولت مل پاتی ہے۔ اس کی وجوہات جاننے کی ضرورت بھی زیادہ ہے کہ کینسر اچانک یہاں کیوںکر تیزی سے پھیلنا شروع ہوگیا ہے۔ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ اس کی اہم وجہ چاغی میں 1998 میں کیئے گئے ایٹمی دھماکوں کے بعد ان سے نکلنے والے تابکاری کے اثرات ہیں۔ اگر واقعی میں ایسا ہے تو اس کی ذمہ دار وفاقی حکومت کے ساتھ اس وقت کی صوبائی حکومت میں شامل بی این پی مینگل بھی ہے، جن کے پاس 1998 کی وزارتِ اعلیٰ موجود تھی۔

نقاد کہتے ہیں کہ 28 مئی 1998 کو وزیراعلیٰ بلوچستان سردار اختر مینگل پاکستان کے وزیراعظم محمد نواز شریف کے ڈرائیور بن کر انہیں چاغی میں ایٹمی دھماکہ کی جگہ لے گئے تھے۔

کئی برس گذرنے کے بعد اب اختر مینگل اور ان کی پارٹی پھر حکومت میں ہیں بلکہ عمران خان کی وفاقی حکومت ان کے سینگوں پر کھڑی ہے، اس لیئے ان کے پاس 1998 کا حساب برابر کرنے کا ایک سنہری موقع ہے کہ بلوچستان میں کینسر ہسپتال بنا کر اسے اپنے نام منسوب کرا دیں۔

ویسے بھی نیشنل پارٹی ڈھائی سال حکومت کے بعد بلوچستان میں علم و ادب پھیلانے کا دعویٰ کر رہی ہے اور بی این پی مینگل کے پاس اس کے برابر پہنچنے کا کوئی سیاسی نعرہ نہیں ہے۔ اگر کینسر ہسپتال کا سہرا اپنے نام کرنے میں کامیاب رہے تو 1998 کے گناہ بھی دھل جائیں گے ساتھ میں عوامی سپورٹ بھی ملے گی۔

تربت سے تعلق رکھنے والے شاعر ظفر اکبر کے بیٹے حمل اکبر بھی کینسر کے شکار ایک ایک ایسے مریض ہیں، جن کے لیئے علاج کی بھاری فیس ادا کرنا ممکن نہیں تھا۔ حمل میں کینسر کی تشخیص کے بعد ان کے لیے ایک منظم چندہ مہم شروع کی گئی۔

حمل سپورٹ فنڈز کے نام سے حمل اکبر کے لیے کمپین میں 70 لاکھ کے لگ بھگ رقم صرف چار دنوں میں جمع ہوگئی۔ حکومتی امداد کے بغیر بلوچ عوام نے اپنی مدد آپ کے تحت صرف تین سے چار دنوں میں یہ تاریخی کام کرکے اپنے زندہ ہونے اور بہ حیثیت قوم اجتماعیت کا ثبوت دیا۔

حالاںکہ درمیان میں سیاسی مداریوں نے اس کمپین کو اپنے نام کرنے کی جو ناکام کوشش کی تھی، اس کا منفی اثر بھی اس مہم پر کچھ نہ کچھ پڑا مگر سیاسی بونوں کا قد جہاں تھا وہ وہیں پڑے رہ گئے اور اس مہم میں شامل نوجوان سرخرو ہوئے۔

عوام کے خلوص اور قربانیوں و ہمدردیوں کو طاقت بنا کر اس مہم کو چندہ مہم سے کینسر ہسپتال مہم بنانا چاہیئے اور وہ سیاست کار جو شکاریوں کی طرح موقع کی طاق میں بیٹھے ہیں، انہیں اس مہم میں شامل کیا جانا چاہیئے، ہوسکتا ہے ان کے سیاسی اثرات کا کچھ فائدہ مل سکے۔

حمل ظفر کے والد ظفر اکبر نے ایک پیغام میں مطلوبہ ٹارگٹ مکمل ہونے کے بعد حمل کے لیے چندہ مہم بند کرنے کا اعلان کیا لیکن اس کے بعد کئی ایسے مریضوں کے نام سامنے آئے جو کینسر کے شکار ہیں، مگر ان کے پاس علاج کی استطاعت نہیں ہے۔ جس کے بعد بلوچستان میں کینسر ہسپتال کی ضرورت پہلے سے زیادہ ابھر کر سامنے آئی ہے۔ اس لیے اس مطالبے کو اب مہم بنانے کی ضرورت ہے۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔