بلوچستان تعلیمی ایمرجنسی باوجود 14 فیصد اساتذہ اسکولوں سےغیر حاضر رہتے ہیں

271

رواں سال کے آغاز میں تعلیم کی حالت پر سالانہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس دور میں بلوچستان میں صرف نو اعشاریہ چھ فیصد سرکاری ہائی سکولوں میں فعال کمپیوٹر لیب موجود ہیں۔

تاہم نجی سکولوں میں اس کی شرح اٹھاون اعشاریہ تین فیصد ہے۔ رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ جوں جوں بچے تعلیمی مدارج طے کرتے ہیں، ان کے سکول جانے کی شرح کم ہوتی ہے۔ پہلی جماعت میں داخل ہونے والے ہر آٹھ میں سے صرف تین دسویں جماعت تک پہنچ پاتے ہیں۔ سکول جانے کی عمر سے قبل کے چودہ ہزار ایک سو چوہتر بچوں کے سروے کے دوران معلوم ہوا کہ ان میں سے ستتر اعشاریہ سات فیصد بچے پرائمری سے قبل کی تعلیم حاصل نہیں کرتے۔

رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں گریڈ تین کے قریباً چوراسی اعشاریہ پانچ فیصد بچے نہ اردو اور نہ ہی اپنی مادری زبان کا کوئی جملہ لکھ سکتے ہیں۔ ان کی قابلیت کو جانچنے کے سروے کے دوران یہ معلوم ہوا کہ جماعت پنجم کے چونسٹھ فیصد طلباء دوسری جماعت کی کتابیں نہیں پڑھ سکتے۔

اسی رپورٹ کے مطابق گریڈ تین کے چوراسی اعشاریہ پانچ فیصد بچے کوئی جملہ نہیں لکھ سکتے ہیں۔ انگریزی پڑھنے اور سمجھنے کے ٹیسٹ کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ جماعت پنجم کے 68 اعشاریہ ایک فیصد، جماعت ششم کے انچاس اعشاریہ پانچ فیصد، جماعت ہفتم کے چالیس اعشاریہ نو فیصد طلباء دوسری جماعت کے انگریزی کے جملے نہیں پڑھ سکتے۔ مگر آج بھی بلوچستان میں اندازاً 216 فرضی یا غیر فعال سکول ہیں۔ بلوچستاب کا تعلیمی معیار سندھ، پنجاب اور خیبر پختونخواہ سے کی نسبت  سب سے زیادہ خراب ہے اور تعلیمی درجہ بندی کے لحاظ سے بلوچستان کا کوئی بھی ضلع اوپر کے درجوں میں نہیں آتا۔ تعلیمی ایمر جنسی کے نفاذ کے باوجود بلوچستان کے سکولوں میں ہر روز 14 فیصد اساتذہ غیر حاضر رہتے ہیں۔