حیدر میر
بولان میڈیکل کالج میں جعلی داخلہ لینے والے فیصل آباد کے رہائیشی خالد بھٹی کے خلاف آیف آئی آر کی درخواست محکمہ صحت نے جاری کردی۔
خالد بھٹی کے خلاف بلوچستان کے محکمہ صحت نے نوٹیفیکیشن جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ انکا بولان میڈیکل کالج میں داخلہ فوری طور پر منسوخ کیا جائے اور تحقیقات کو مدنظر رکھ کے خالد بھٹی اور اسکے ساتھ ملوث افراد کے خالف ایف آئی آر درج کی جائے۔
گزشتہ ماہ سے جاری بی ایم سی میں جعلی داخلے کا معاملہ کسی پانامہ لیک سے کم نہیں، جہاں تفتیش کے زریعے ایک کے بعد ایک ایسے نام سامنے آئے جو انتظامیہ کا حصہ ہیں اور اس کاروبار میں ملوث ہیں ۔
واضح رہے کہ محکمہ صحت کے ملازم خالد بھٹی کو بولان میڈیکل کالج میں داخلے کا معاملہ اس وقت سامنے آیا جب وہ تیسری بار امتحان میں بیٹھنے کے لیے بلوچستان ہائی کورٹ پہنچے تھے۔ درخواست گزار خالد بھٹی نے موقف اختیار کیا تھا کہ وہ بولان میڈیکل کالج کا طالب علم ہے۔ وہ دو بار امتحان میں فیل ہوچکا ہے اب تیسری بار کنٹرولر انہیں امتحان میں بیٹھنے کی اجازت نہیں دے رہا۔
دوران سماعت بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے جب استفسار کیا کہ درخواست گزار طالبعلم کون ہے تو درخواست گزار وہیں پر کھڑے تھے اور عدالت کو بتایا کہ میں طالبعلم ہوں، درخواست گزار کے عمر کو دیکھ کر ججز حیران رہ گئے تھے اور کہا کہ آپ کیسے میڈیکل کے طالبعلم ہو۔
اسکے بعد 35 سالہ خالد بھٹی کے خلاف باقاعدہ تحقیقات کا آغاز کیا گیا، جس کے نتیجے میں بی ایم سی کے اسٹاف آفیسر اور ایڈمن آفیسر کو معطل کردیا گیا جبکہ جعلی داخلے کے معاملے میں مزید تین افسران کے خلاف تحقیقات جاری ہیں۔
خیال رہے ماضی میں بھی بی ایم سی میں داخلوں میں بے ضابطگیوں کا انکشاف ہوا تھا جہاں بلال وقار نامی شخص کو داخلہ دیا گیا تھا جو کہ خود بی ایم سی میں بطور مالی کام کرتا تھا۔ جبکہ سال دو ہزار بارہ میں مدغن شاہ اور حمزہ رضا نامی دو طالب علموں کو انکے ایف ایس سی رزلٹ آنے سے پہلے داخلہ دیا گیا تھا۔
بلوچ اسٹوڈنٹ ایکشن کمیٹی بارہاں اس حوالے سے احتجاج کرتا رہا ہے اور اخباری بیان بھی جاری کرکے ایسے ناجائز داخلہ دینے والوں کے خلاف کاروائی کرنے کی درخواست کی ہے۔ مگر یہ پہلی مرتبہ ہے جب اس جعلی داخلہ دینے والے گینگ کے خلاف کاروائی ہوئی ہے۔
خضدار کے انجینئرنگ یونیورسٹی میں بھی جعلی داخلوں کا انکشاف ہوا ہے جہاں بنا ٹیسٹ دیئے طلبہ سے پیسے لیکر انھیں من پسند ڈپارٹمنٹ کی سیٹ دی گئی ہے۔
اس سے پہلے بھی کئی بار انکشافات ہوئے ہیں کہ بلوچستان کے نام سے جاری ہونے والے بیرون ملک اسکالر شپس، بڑی یونیورسٹیوں میں سیٹوں اور نوکریوں پر بھی پنجاب کے مقامیوں کا جعلی ڈومیسائل بنا کر انہیں بلوچستان کا ظاھر کرکے اسکالر شپس اور نوکریاں دی جاتی ہیں۔
بلوچستان تعلیمی لحاظ سے پسماندہ تصور کیا جاتا ہے اور اس پسماندگی کا فائدہ دوسرے علاقوں کے لوگ جعلی لوکل اور پیسے کی زور پر اٹھارہے ہیں، جن کہ ساتھ ادارے کے اپنے ملازم ملوث پائے گئے ہیں، اگر اس جعل سازی کے خلاف مزید موثر اقدامات نہیں اٹھائے جاتے تو یہ غریب اور مستحق طلبا کے ساتھ ناانصافی ہوگی اور طالب علم اس تعلیمی نظام سے بدظن ہوکر دوسرے راستے اختیار کریں گے۔