کاروانِ آجوئی – سنگت بولانی

321

کاروانِ آجوئی

سنگت بولانی

دی بلوچستان پوسٹ

ہر حربہ ءِ وحشت میں نہ رلا سکے
یہ ظلمتیں یہ عبرتیں نہ جھکا سکے

لاشِ مظلوم کو دشت ویران میں پھینک کر
دب کے اٹھی جو آواز پھر نہ دبا سکے

توڑ کر امیدِ آجوئی ساروان و جالاوان میں
کاروانِ آجوئی کو روک کے بھی نہ رکا سکے

جب تحریکِ آجوئی شروع ہوئی تب دشمن کا خیال یہی تھا کہ چند لوگ پہاڑوں پر جا کے ہماری فوج کا کیا بگاڑ سکیں گے اور اپنی طاقت کے نشے میں چور و مگن دشمن کی نگاہیں بلوچ سر زمین کی لوٹ مار اور پوری طرح بلوچستان پر قبضہ جمائے رکھنا اور ساحل و وسائل کا استعمال کرکے دنیا میں اپنی طاقت اور وحشت کو پروان چڑھانا تھا جو کہ اسکی سب سے بڑی بھول اور خام خیالی تھی۔

دشمن نے جس قوم سے دوبدو ہونے کی ٹھان لی تھی، شاید دشمن اسکی تاریخ سے نا آشنا تھا، جب نواب نوروز کی تحریک شروع ہوئی تب جھالاوان اور ساروان میں یہ تحریک مختلف علاقوں میں چھوٹے بڑے گروپس میں پھیل گئی اورکئی مقامات پر پہ در پہ دشمن پر گوریلا حملے کر کے کئی محاذوں پر دشمن کو پسپاء کیا، انتہائی سخت اور کٹھن حالات میں کم ترین ریسورسس کے باوجود سامنے کھڑے یزیدی لشکر کو شکست سےدوچار کیا۔ اس وقت بھٹو کی دور حکومت چل رہی تھی جب جرنیل ضیاء الحق کی قیادت میں تقریباً 60000 کے قریب فوج نے جھالاوان کے پہاڑوں میں آپریشن شروع کیا، تب صفر خان جیسے گوریلے دشمن کے سامنے پہاڑ بن گئے اور کئی جہد کار اپنے وطن کی محبت میں دشمن کے سامنے سینہ تان کر آمنے سامنے ہوئے اور شہادت کا جام نوش کرکے راہ حق کے لیئے مثال بن کر تاریخ میں ہمیشہ کیلئے امر ہو گئے۔

جب دشمن کو پتہ چل گیا کہ اس قوم کی شکست نا ممکن ہے، تب دشمن انگریزوں کی چال چلی اور صادق و جعفر جیسے کرداروں کو بلوچ قوم میں ڈھونڈنے کی کوشش کی اور کامیاب رہا، جب جرنل ضیاء الحق نے سردار دودا خان کو قرآن پاک دے کر نواب نوروز کے پاس بھیجا اور کہا کہ اس پاک کتاب الہی کے واسطے پہاڑوں سے اتر کر جہد آجوئی سے دستبردار ہوجائیں، ہم آپ سے مذاکرات کریں گے، جبکہ آپ اور آپکے ساتھیوں کو کچھ نہیں کیا جائے گا اور نواب نوروز نے ایک سچے مسلمان اور بہادر بلوچ ہونے کا ثبوت دیکر اللہ تعالیٰ کی پاک کتاب پر بھروسہ کرتے ہوئے دستبردار ہوئے. ظالم اور جابر دشمن نے اللہ کی کتاب کی توہین کرکے بابو نوروز، بیٹے اور ساتھی سمیت قید کرلیا، بابو نوروز کے بیٹوں کو اس کے سامنے سکھر سینٹر جیل میں پھانسی دی گئی اور نواب صاحب بعد ازاں heart attack کا شکار ہو گئے۔.

دشمن تحریک کے زوال کے آثارِ دیکھ کر خوشیاں اور جشن منانے لگا لیکن قابض کو اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ یہ تحریک ایک ایسی قوم لڑ رہا ہے، جسکی تاریخ گواہ ہے اپنی تشخص اور بقاء کیلئے کئی سامراجی قوتوں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار ثابت ہوئی ہے اور دشمنوں کو شکست سے دوچار کیا ہے۔

ایک بار پھر 1990 کے بعد تحریک پروان چڑھنے لگا، جسمیں نواب خیر بخش مری، سردار عطاء اللہ مینگل، بالاچ مری، شیرو مری، بابائے قوم نواب اکبر خان بگٹی جیسے لیڈروں نے تحریک میں ایک نئی روح پھونکی اور ساروان سے لیکر جھالاوان تک، مکران سے لیکر رخشان تک سرخ انقلاب کی گونج اٹھی اور اس دھرتی نے ایک بار پھر کئی نواب نوروز، صفر خان، لونگ خان، مجید جان جیسے مردِ مجاہد جنم دیے جو کہ استاد اسلم، علی شیر کرد، درویش جیسے گوریلوں کی شکل میں مورچے سنبھالے اور دشمن کی جیتی ہوئی جنگ کو ہار میں بدل دیا۔

ایک بار پھر ایک ایسا سامراجی ڈکٹیٹر جرنل پرویز مشرف رجیم شروع ہوئی، جسمیں بلوچ قومی تحریک کو کاونٹر کرنے کیلئے عام بلوچ آبادیوں پر فوج کشی کی گئی بلوچستان کے مختلف علاقوں میں آپریشن کی گئی، کئی لوگوں کو جلا وطن کر دیا گیا، مسخ شدہ لاشیں پھینکےگئے اور بابائے قوم نواب اکبر خان کو شہید کر دیا گیا، اسکے بعد ایک ایسا انقلابی طوفان اٹھا، جو دشمن کے شکست کو ممکن میں بدل دیا، جسمیں کئی مسلح تنظیموں کا قیام ہوا اور سیاسی و سماجی،سفارتی تنظیمیں بھی بنیں جس میں Bso, BNM, BRP قابل ذکر ہیں جنہیں کاونٹر کرنے کیلئے، قابض نے گہناونا کھیل شروع کیا۔

ہر مکتبہ فکر کے لوگوں کو اغواء، ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا، مسخ شدہ لاشیں، مقامی ڈیتھ سکواڈ کا قیام بھی اس تحریک کو ختم نہ کر سکی بلکہ تحریک پہلے سے بھی زیادہ مضبوط، مستحکم، اور یکجا ہو کر ابھر کر سامنے آئی۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔