تحریر: حکیم واڈیلہ بلوچ
’’ فیصلے کی گھڑی آن پہنچی ابھی یا کبھی نہیں ” لینن نے یہ تاریخی جملہ عظیم انقلاب سے محض تین دن قبل کہا تھا اور تیسرے دن دنیا کا پہلا سوشلسٹ ریاست عظیم الشان انقلاب کے کامیابی کے بعد نمودار ہوا تھا ۔گوکہ انقلاب کے لئے مسلسل جدوجہد کی جاتی ہے تیاری کے کئی مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔مگر وقت چند ثانیوں کا ہوتا ہے۔جی ہاں فیصلہ صرف چند لمحوں کا ہوتا ہے۔اگر اس وقت قوموں میں لغزش آجائے اور تذبذب برقرار رہے تو جہد مسلسل اور ساری تیاری خس و خاشاک بن کر تحلیل ہوجاتی ہے۔پھر یہی تباہی و بربادی تبدیلی اور انقلاب کو مزید دور دھکیل دیتے ہیں۔ایسا اس دنیا میں کئی بار ہوا ہے کم ہمتی، جر ئت کا فقدان اور تذبذب نے انسان اور انسانی امنگوں کو صدمات سے دوچار کیا ہے۔پھر ہر طرف ذلت و رسوائی نے اپنی منحوس بانہوں کو پھیلا کر عوام کو ان میں جکڑ کر صدیوں کی غلامی کے عفریت بھرے سڑن زدہ و بدبودار دیواروں میں قید کر لیا۔
بلوچ قومی آزادی کی جاری تحریک اپنی تمام تر کمزوریوں اور کوتاہیوں کے باوجود عمل پزیر ہے۔ان گنت صدمات(جو تمام تحاریک کا حصہ ہوتے ہیں جس میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ) سازشوں، دھوکہ بازیوں اور نقصانات لئے ہوئے حصول مقصد کیلئے کوشاں ہے۔یہ کیا کم ہے کہ ماضی کی تحریکوں کے برعکس اس کا وژن واضح ہے اور کافی وسیع ہونے کے ساتھ بین القوامی سطح پر نہ صرف نمایاں ہے بلکہ عالمی برادری کی توجہ حاصل کرنے میں تاریخ میں پہلی بار کامیاب ہو چکی ہے۔ یہ کیا کم ہے کہ آج بلوچ جہد کار نامسائد حالات میں بھی کسی نہ کسی طریقے سے اپنے قومی فرائض ادا کر رہے ہیں؟۔یہ کیا کم ہے کہ خطے اور بین القوامی صورتحال روزافزوں تحریک کے حق میں جارہے ہیں؟۔ یہ کیا کم ہے کہ قابض ریاست اپنے کرتوتوں کی وجہ سے عالمی تنہائی کا شکار اور اندرونی بحرانوں میں دن بدن برباد ہوتا جارہا ہے؟۔ان سب پر اگر ایک نظر ڈالی جائے تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ بلوچ قومی آزادی کی تحریک بہت حد تک کامیاب ہوچکی ہے۔قابض ریاست نے اہنے تمام تر ہتھکنڈے استعمال کئے اور کررہی ہے مگر اسے ناکامی کے سوا کچھ نہیں ملا ہے۔سرفیس کو انتہائی ظالمانہ انداز سے کچلنے کے بعد اس نے سمجھ لیا کہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوا ہے۔مگر اس کا الٹا نتیجہ برآمد ہوا سر فیس کے جہد کار بیرونی ملک نکل کر ساری دنیا میں پھیل گئے اور آج ان ہی کی انتھک اور شبانہ روز محنت نے دنیا کی توجہ حاصل کرلی ہے۔
آئیے زرا قابض ریاست پرمختصر نظر ڈالیں۔پاکستانی معاشرہ اور ریاست کے درمیان بہت بڑی خلیج حائل ہوچکی ہے جس کاپاٹنا اب ناممکن بنتا جا رہا ہے۔معاشرہ ریاست سے بیگانہ ہوتا جارہا ہے اس کیفیت اور اس صورتحال سے پاکستانی معاشرے میں اودھم مچی ہوئی ہے۔انتشار نے پاکستانی معاشرتی ڈھانچے کو کھوکھلا کردیا ہے۔ریاست کا بحرانی کیفیت اپنی تمام تر گہرائیوں سے اب واضح ہوچکا ہے۔حکمران طبقے کا مفاداتی ٹکراؤ اس سے پہلے اتنا شدید ترین کبھی نہیں رہا۔ پاکستانی اسٹابلشیمنٹ جنرل فضل مقیم کے فلسفے پر مسلسل عمل درآمد کررہاہے۔مگر اس کے ساتھ ہی دوسرے عوامل پر بھی کار بند ہے۔پاکستانی معاشرہ ریاست کے کسی بھی عنصر میں شامل نہیں ہے۔ریاست کی پالیسیاں حکمران طبقات چپقلش کو میمیز دے رہا ہے۔معاشرہ کیفیتی تبدیلیوں سے بیگانہ ہے پاکستانی معاشرے میں بے حسی،سنگ دلی، نمود و نمائش، قتل و غارت گری، لوٹ مار، جسم فروشی، خودنمائی وخودستائی، جائز و ناجائز ذرائع سے دولت کا حصول، اسمگلنگ، منشیات، سماجی بے ترتیبی، جھوٹ منافقت، اقرباپروری، مذہبی جنونیت، فرقہ واریت، چاپلوسی، مفاداتی تعلقات، بے حیائی، بیگانگی، بیزارگی، سکڑپن، حد درجہ نفسیاتی مسائل انتہاوں کو چھو رہے ہیں۔اس طرح کے بھیانک منظر دنیا کے کسی بھی معاشرے میں نظر نہیں آتے جس طرح کے مناظر پاکستانی معاشرے میں نظر آتے ہیں۔پاکستانی معاشرے میں لوگ یکسر بے یار و مدد گار ہونے کے ساتھ ساتھ ایک طرح سے بے بس و خودروبھی ہیں۔حکمران طبقات کے چند پوش علاقوں کو چھوڑ کر پاکستان کی اکثریتی آبادی جہاں عوام کی اکثریت بستی ہے جو گنجان آبادیوں پر مشتمل ہیں انتہائی تضادات میں گھرے ہوئے ہیں۔
پاکستانی جرنیلوں کے وسیع جائیداد امریکہ، یورپ، آسٹریلیا میں ہیں اور ان جرنیلوں نے بڑی ہوشیاری اور چابکدستی سے آسٹریلیا میں زرعی اراضی میں سرمایہ کاری کی ہوئی ہے اور ریٹائر منٹ کے بعد نہایت خاموشی سے اکثر جنرل آسٹریلیا منتقل ہو جاتے ہیں۔یورپ اور امریکہ کے نسبت یہ جنرل آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، پاپوانیوگنی، پورٹوریکو،بہاماس، میکسیکو، اور دوسرے لاطینی امریکی ممالک کو ترجیح دیتے ہیں۔جہاں ان کی دولت مخفی ہوتی ہے اور ٹیکس سے بھی آزاد اور یہ ممالک دنیا کے دوسرے جمھیلوں میں زیادہ حصہ نہیں لیتے اس لیے ان کا نام و مقام بہت کم نمایاں ہوتا ہے۔اس لئے ان جرنیلوں کی دولت کے متعلق عام لوگوں کو معلومات نہیں ہوتی۔
پاکستانی ریاست کا بطور ریاست امیج کا تقریباً خاتمہ ہوچکا ہے پاکستانی ریاست کا شمار بہ حیثیت ایک ملک کے نہیں بلکہ ایک خطے کی ہے جس پر ایک بندوق بردار گروہ کا قبضہ ہے اور وہ گروہ فوج ہے۔اس کی آبیاری کولڈ وار ارا میں ہوئی جب عالمی طاقتوں کو اس کی ضرورت پڑی تھی۔ انیس سو ترپن میں کوریائی جنگ کے زمانے میں اس کو اہمیت حاصل ہوئی جب یو ایس اے اور مغربی طاقتوں نے سویت یونین اور دوسرے سوشلسٹ ممالک کے خلاف پاکستان، عراق، ایران اور ترکی کو بغداد پیکٹ اور بعدازاں سیٹو اور سینٹو وغیرہ میں شامل کیا۔مگر ان ممالک کے برعکس پاکستانی ریاست نے اس اتحاد میں اپنی اندرونی بحران کی وجہ سے کوئی قابل ذکر کردار ادا نہیں کیا۔امریکی فوجی امداد بھی اسے اس شرط پر دیتی رہی ہے کہ پاکستان اس اسلحہ و امداد کو صرف مغربی سرحدوں تک محدود رکھے گا اور مشرقی سرحد پر اس امداد کو استعمال نہیں کرے گا ۔ اس کا مقصد پاکستان کی اہمیت صرف فرنٹ لائن کی رہی اور سویت یونین کے خلاف ایک طفیلی کے علاوہ اس کا اور کردار نہیں تھا۔مگر پاکستانی ملٹری بیوروکریسی نے اس حیثیت کو غنیمت جانا اور اس سے فائدہ اٹھا کر خود کو توانا کیا۔
پاکستانی فوج کو من مانی کرنے کا موقع انیس سو اٹتر ء میں تب ملا جب خطے کے حالات بڑی تیزی سے تبدیل ہوئے۔ ایران میں انقلاب سے امریکہ اور مغربی طاقتوں کا دیرینہ وفادار رضا شاہ پہلوی کی استبدادی شہنشاہی کا خاتمہ ہوا اور ساتھ مغربی طاقتوں کا پولیس اسٹیٹ جو اس ریجن میں سوشلسٹ انقلاب اور ترقی پسند کٹر دشمن تھا زمین بوس ہوا۔اس کے ساتھ افغانستان میں اپریل 1979ء میں افغان انقلاب کی حفاظت کے لیے سویت یونین کی ریڈ آرمی داخل ہوئی تو سامراجی طاقتوں کے لئے پاکستان کی اہمیت دو چند ہوئی۔چونکہ خطے میں بڑی انقلابی تبدیلیاں آچکی تھیں، اسی لیے مغربی طاقتوں سعودی عرب اور دیگر رجعتی حکمرانوں بشمول چین نے انتہائی ڈھٹائی سے پاکستانی فوج کے ساتھ ملکر افغانستان کے خلاف شرمناک اور گندے جنگ کا آغاز کیا۔ مگر آج صورتحال بدل چکی ہے، اب پاکستان ایک ملک نہیں بلکہ دہشتگردوں کا عالمی مرکز ہے۔اس کے ساتھ ہی پاکستان نے اس خطے کو بلاک کیا ہوا ہے وہ افغانستان میں اپنی من مانی کررہاہے۔دنیا بھر میں دہشتگردوں کا پشت پناہ اور چاہتاہے کہ ہر صورت میں وہ خود کو برتر تسلیم کر والیں۔مگر عالمی حالات تبدیل ہو چکے ہیں خود پاکستان اندرونی بحرانوں سے لبریز ہے۔ اسکے ایٹمی ذخائر پوری دنیا کے لئے انتہائی خطرناک بن چکے ہیں۔ انکے وسائل کا حامل اسکی فوج تباکن رجتی خیالات رکھتی ہے۔اس لئے اب عالمی برادری فیصلہ کن گھڑی میں کھڑی ہے کہ اس ریاست کو من مانی کرنے نہیں دینگے اور اس کو سبق ضرور سکھائیں گے دوسری جانب اس کے اندرونی بحران بھی اسکے لئے تباکن ہیں۔
لہٰذا بلوچ قوم کو وقت و حالات نے تاریخ میں پہلی بار ایک سنہرا موقع دیا ہے۔ اب بلوچ قوم سے وابستہ رہنماؤں اور کارکنوں کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے قومی فرائض کو جلد از جلد ادا کریں۔عالمی برادری یو این او اور خاص کر یو ایس اے اور یورپ سے ہر قسم کے تعاون اپنے مضمرات کو سامنے رکھتے ہوئے آگے بڑھیں۔یہ وقت اتحاد و اتفاق کا ہے خود اپنے درمیان بھی اور عالمی برادری سے بھی تاکہ اس جابر و ظالم ریاست اور اس کی رجعتی فوج سے گل زمین کو آزاد کرائیں اور اس خطے اور پوری دنیا کو اس سے چھٹکارا دیں۔