لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 3373 دن مکمل

122
file photo

کوئٹہ پریس کلب کے سامنے جبری طور پر لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے قائم کیے گئے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 3373 دن مکمل ہوگئے۔ بسیمہ سے بلوچ طلباء ایکشن کمیٹی کے حذفیہ عیسازئی اور عرفان بلوچ نے لاپتہ بلوچ سیران و شہداء کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کرنے کیلئے کیمپ کا دورہ کیا۔

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے کہا آج تک ہمارے ہاں کبھی بھی بات نہیں کی گئی کیونکہ ہم نے ہمیشہ مسئلے کو سیاسی تناظر میں دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کی ہے، شاہد یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں جب بھی ظلم، جبر، تشدد، نابرابری، ناانصافی کی تشریح کی جاتی ہے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم فقط گرفتاریوں، جسمانی سزاؤں، ذہنی اذیتوں کے متعلق بات کر رہے ہیں یہ ظلم اور جبر کو ایک بند صورت میں دیکھنے کا ایک غیر انقلابی انداز ہے کہ جب تک ظلم اور جبر کی یہ کیفیت سے ہم انفرادی طور پر متاثر نہ ہوں تب تک اجتماعی طور پر ہم ظلم جبر ناانصافی اور نا برابری کی ذائقے کوچکھنے کی حس سے محروم رہیں گے۔

ماما قدیر بلوچ نے وفد سے کہا کہ ریاستی جبر نے ہر بلوچ کے دل و دماغ میں بالادست کے لئے نفرت اور انسانی حقوق لاپتہ افراد و شہداء کی خاطر محبت کا وہ مقام پیدا کیا ہے جو قابل تعریف ہے میں نے بلوچ صحافت سے واسطہ چند دانشور حضرات اور چند بلوچ صحافیوں کو طرح طرح کی اذیتیں برداشت کرنے کے بعد کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرتے ہوئے دیکھا ہے اگر کوئی بلوچ قوم کے لئے لکھنے والا تھا تو وہ شہید صبا دشتیاری صاحب تھے مگر دیگر بلوچ آئیں گے تو خوف کے مارے وہ خاموش ہوجائیں گے ان کے دلوں میں خوف کا ایک طوفان برپا ہوجاتا ہے، ٹارچرسلوں کے اندھیرے کال کوٹھڑی زیر نگاہ ہونگے جہاں بلوچ ہونا ایک جبر ہے جو شاہد اب مجھے پتہ چلا کیونکہ ایک محکوم و مظلوم قوم کی آواز کسی کے در پر پہنچانا شاہد ایک بہت بڑا جرم ہے قومی تحریک حقوق حاصل کرنے کے لئے قربانی چاہے وہ سروں کی ہو یا قید و بند کی ہو صرف اخبارات کے بیانوں سے یا ایک ریلی نکالنے حقوق نہیں ساحل وسائل نہیں ملتے۔