نیشنل پارٹی اور امن کا ڈھونگ
تحریر: شہیک بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
اقتدار سے دوری نیشنل پارٹی کے لیے شدید تکلیف کا باعث بن رہی ہے اور اب یہ خود کو امن قائم کرنے والے سورما کے طور پر پیش کررہے ہیں لیکن یہ جس کو امن کہہ رہے ہیں اس کا مطلب سادہ الفاظ میں بلوچ نیشنلزم کی تحریک کو کمزور کرنے سے تشبہیہ دینا ہے یعنی ریاست کو جو کام کرنے میں کافی عرصہ لگا نیشنل پارٹی نے وہ کام ڈھائی سال میں کیا یعنی بطور اینٹی نیشنلسٹ نیشنل پارٹی خود کو امن قائم کروانے کا چیمپیئن تسلیم کروانا چاہتی ہے۔ نیشنل پارٹی کا بیانیہ 2013 کے الیکشن سے پہلے اور پھر اقتدار میں رسائی کے بعد اور پھر 2018 کے الیکشن میں ذلت آمیز طور پر اقتدار سے دور رہنے کے نتیجے میں آج ان کو لفظ “مزاحمت” کی ضرورت آن پڑی ہے لیکن یہ دلچسپ امر ہے ایک جانب یہ مزاحمت کو امن میں کنورٹ کرنے پر داد و تحسین بھی چاہتے ہیں تو دوسری جانب مزاحمت کی بھڑکیں بھی ماررہے ہیں لیکن در حقیقت نیشنل پارٹی ففتھ کالمسٹ کا بدترین کردار ہے اور اس نے بلوچ قومی تحریک کو کافی نقصان پہنچایا۔
اب جس امن کی یہ بات کرتے ہیں، وہ امن نوآبادیاتی قوتوں کے حوالے سے ہے کہ وہ امن سے چاہے لوٹ کھسوٹ کو جاری رکھیں، 2013 میں اقتدار میں شرکت داری پر یہ واضح طور پر سامنے آئے اور انہی کے دور میں مسنگ پرسنز کی اجتماعی قبریں دریافت ہوئی اور بلوچ جہدکاروں کی نا صرف نشاندہی بلکہ نشانہ بنانے کے پلان میں مکمل شریک ہوکر ریاست سے اللہ نذر کو خصوصی طور پر ختم کرنے کی فرمائش نیشنل پارٹی کے امن کی کارستانی ہے۔ تعلیمی اداروں کو ایف سی کی تحویل میں دینے سے معاشی طور پر تباہ حال علاقوں میں محدود تیل کے کاروبار پر قدغن لگانا تاکہ نان شبینے کے لیے مجبور ہوکر بلوچ نوجوان ریاست کے لیے چند پیسوں کے عوض بلوچ جہد کے خلاف کھڑے ہوں۔
اسی دورانیے میں ہم دیکھتے ہیں بلوچ آزادی پسند جہدکاروں میں مرکزی کرداروں پر ریاستی فوکس زیادہ ہوتی ہے، کچھ واقعات ایسے بھی ہوتے ہیں جہاں اکسانے کے لیے کسی ردعمل کا اظہار چاہیئے ہوتا ہے لیکن نیشنل پارٹی کی بدقسمتی کہیئے کہ اس کے تمام اہداف حاصل نہ ہوسکے اور تمام نقصانات کے باوجود بلوچ تحریک اس مشکل فیز میں سروایو کرگیا لیکن نیشنل پارٹی کو ان امن کے خدمات کے لیے کوئی انعام نہیں ملا بلکہ 2018 کے الیکشن میں ان کے ساتھ وہی ہوا جو استعمال شدہ ٹشو پیپر کیساتھ ہوتا ہے انہیں کچرہ دان میں پھینک دیا گیا۔
اب نیشنل پارٹی شفیق مینگل کی حمایت میں واضح طور پر سامنے آچکا ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ بلوچ نسل کشی میں اس کی حصہ داری رہی ہے۔
شفیق مینگل سمیت تمام سماجی جرائم میں ملوث افراد کو اپنا کر بلوچ آزادی کی تحریک کے خلاف برسرپیکار ہونا اور اسے امن قائم کرنے سے تشبہیہ دینا گمراہ کن امر ہے لیکن بلوچ عوام اتنے بیوقوف نہیں کہ وہ ان موٹی موٹی باتوں کو سمجھ نہ سکیں یہ ایک الگ بات ہے کہ شدید ریاستی جبر کے باعث اظہار رائے کی کوئی گنجائش نہیں لیکن نیشنل پارٹی مکمل طور پر مسترد کی جاچکی ہے۔ اب جب یہ مکمل کھل کر سامنے آگئے ہیں تب مستقبل میں ایسے ففتھ کالمسٹ کرداروں سے نپٹنے کے لیے جامع پالیسی ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔
نوآبادیاتی نظام کا نمائندہ بن کر امن قائم نہیں کیا جاتا بلکہ نوآبادیاتی پالیسیوں کو نافذ کیا جاتا ہے اور یہی پالیسیاں جبر و استحصال کے راہ کو مزید ہموار کرتیں ہیں، جبکہ مسلسل مزاحمت ہی نوآبادیاتی نظام کے خاتمے اور ایک نئے آزاد سماج کے قیام پر منتج ہوسکتا ہے جہاں انسان حقیقی طور پر امن کو محسوس کرسکتا ہے۔
بلوچ جہدکار ایک آزاد اور پرامن سماج کے قیام کے لیے مسلسل برسرپیکار ہیں اور یہی بلوچ قوم کو منزل مقصود تک پہنچا سکتے ہیں، نیشنل پارٹی ریاستی فہرست میں اپنے طبعی موت کا شکار تو ہوچکی ہے اب تاریخی فیصلے کا انتظار ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔