بی این ایم کے مرکزی ترجمان نے کہا کہ پاکستان کی جانب سے بلوچستان میں خونی کارروائیوں میں نہایت تیزی لائی گئی ہے۔ شیلنگ اور بمباری روز کا معمول بن چکے ہیں۔ بلوچستان پر قبضہ اور ایک کالونی بنانے کے بعد69 سالوں میں لاکھوں افراد متاثر ہوچکے ہیں۔ کئی ہزار لاپتہ، اغوا اور دوران حراست قتل کئے جاچکے ہیں۔ نئی صدی کے آغاز میں بلوچستان پر پانچویں مرتبہ فوجی آپریشن شروع کی گئی جو تاحال جاری ہے اور بے شمار انسانوں کی جانیں لے چکا ہے۔ تیس ہزار سے زائد خفیہ زندانوں میں انسانیت سوز تکلیفیں برداشت کر رہے ہیں۔ ان میں تیرہ ہزار گزشتہ ایک سال میں اغوا کئے گئے ہیں، جس کا کٹھ پتلی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی اور بلوچستان حکومت کے ترجمان میڈیا میں اعتراف کر چکے ہیں۔ اس کے باوجود کسی کو بھی منظر عام پر نہیں لایا گیا ہے۔ جو بین الاقوامی انسانی حقوق کی پامالیوں کا کھلی خلاف ورزی ہے۔ مرکزی ترجمان نے کہا کہ آج ہرنائی کے علاقے شاہرگ میں پاکستانی جنگی جہازوں کی شیلنگ و بمباری سے خواتین اور بچوں سمیت دس افراد شہید ہوئے ہیں۔ جن میں پانچ خواتین اور پانچ مرد شامل ہیں۔ کئی افراد کو اُٹھا کر لاپتہ کیا گیا ہے، جن میں چارزخمی عورتیں بھی شامل ہیں۔ کل شروع ہونے والے آپریشن میں ایک بلوچ یار محمد چھلگری کے خاندان اور رشتہ داروں کو کے گھروں کو نشانہ بنایا گیا۔ شہید ہونے والوں میں سے اب تک لیمو مری، ختخان، جعفر مری، مینو بی بی، بی بی مخمل، بی بی بانو کے نام سامنے آچکے ہیں۔ جن کی لاشیں پاکستانی فوج کے پاس ہیں۔ بلوچ آبادیوں پر اس طرح کی بلا تفریق بمباری بلوچ نسل کشی میں تیزی لانے کے سوا کچھ نہیں۔ دنیا میں عام شہریوں پر ریاستی فورسز کی جانب سے اس طرح کی مظالم پر خاموشی اختیار نہیں کی جاتی مگر ایسے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کو دنیا میں دہشت پھیلانے اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی پر استثنیٰ دیا گیا ہے۔ ترجمان نے کہا کہ آواران کولواہ میں آپریشن دوسرے ہفتے میں بھی جاری ہے اور ابھی تک کئی دیہات محصور ہیں۔ ان علاقوں کے تمام راستے سیل کرکے گھروں کو جلانے کے بعد عام لوگوں کو خوراک اور طبی امداد کے بغیر تپتی دھوپ میں رہنے پر مجبور کیا گیا ہے۔ جس سے کئی بیماریوں کے پھوٹنے اور مزید ہلاکتوں کا خدشہ ہے۔ پہلے ہی شیلنگ اور بمباری سے تین بلوچ فرزندوں کو شہیدکیا گیا ہے۔ مسلسل فوجی آپریشنوں سے ان علاقوں سے کئی لوگوں کو زبردستی ہجرت پر مجبور کیا گیا جو سندھ اور دوسرے علاقوں میں کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ حالیہ آپریشن باقی ماندہ آبادی کوبے دخل کرنے کیلئے کوششیں ہیں۔ حالیہ مردم شماری کے نتائج سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ان علاقوں سے لاتعداد بلوچوں کو اغوا، قتل و بے دخل کیا جاچکا ہے۔ گزشتہ مردم شماری سے یعنی انیس سالوں میں ضلع آواران کی آبادی میں صرف تین ہزار نفوس کا اضافہ ہوا ہے۔ یہی صورتحال سب بلوچ علاقوں کی ہے۔ جبکہ پاکستان میں آبادی دُگنی ہوگئی ہے۔
تازہ ترین
اسرائیل اور حماس نے امن منصوبے کے پہلے مرحلے پر اتفاق کر لیا
اسرائیل اور حماس کے درمیان امن منصوبے کے پہلے مرحلے پر اتفاق کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بدھ کو کہا کہ انہیں...
خاران حملے میں قابض پاکستانی فوج کے 5 اہلکار ہلاک کئے – بلوچ لبریشن...
بلوچ لبریشن آرمی کے ترجمان جیئند بلوچ نے میڈیا کو جاری بیان میں کہا ہے کہ سرمچاروں نے آج خاران میں قابض...
کوئٹہ: جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاج جاری، ثاقب بزدار کی بازیابی کا مطالبہ
بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے خلاف وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے قائم احتجاجی کیمپ کو، تنظیم کی ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن...
گوادر: پانی کی قلت برقرار، شہری سراپا احتجاج
بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر کے پیاسے شہریوں نے پانی کی شدید قلت کے خلاف جی ڈی اے دفتر کے سامنے احتجاجی...
خاران: پاکستانی فورسز کے پوسٹ پر حملہ، ہلاکتوں کی اطلاعات
بلوچستان کے ضلع خاران میں مسلح افراد نے پاکستانی فورسز کے ایک پوسٹ کو حملے میں نشانہ بنایا ہے۔
فورسز پوسٹ کو خاران کے علاقے...