بلوچ خواتین کی گمشدگی اور عوامی حلقوں کی خاموشی
تحریر: توارش بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
دنیا میں یہ ایک مطمع حقیقت ہے کہ جب کوئی قابض کسی قوم کی اجتماعی نسل کشی پر اتر آتا ہے تو وہ کوئی بچہ بوڑھا اور عورت نہیں دیکھتا بلکہ وہ اپنے سامنے ہر رکاوٹ کو مٹانے پر اتر آتا ہے، جس کا واضح مثال ہمیں دوسری جنگ عظیم کے دوران جرمن فوجیوں کا عام عوام پر بھیانک حملے و بچوں اور عورتوں کو زندہ دفنانے جیسے گھناؤنے واقعات نے دنیا پر ایک بات واضح کر دیا کہ جنگ میں قابض فوجیں انسانی جانوں کا ضیاع ایسے کرتے ہیں جیسے ہمارے یہاں نہاتے وقت پانی ضائع کرتے ہیں۔ یہی رویہ ہمیں امریکہ کی جانب سے بھی دیکھنے کو ملا جب امریکی فوج نے جنگ کے آخری ادوار میں جب جاپان ہتھیار پھینک رہا تھا، وہاں دو مقامات پر ایٹمی دھماکے کیے جس سے لاکھوں کی تعداد انسان لقمہ اجل بن گئے۔ اگر ہم تاریخ کا بغور جائزہ لیں تو ہمیں ہر جگہ قابضوں کا یہی رویہ دیکھنے کو ملا ہے۔
پاکستان کی ہی بات کر لیں جب بنگلادیش نے اپنی آزادی کی بات شروع کی اور اپنا ایک علیحدہ قوم کی تشکیل کی بات کی تو قابض پنجابی فوج نے نسل کشی کا ایسا مظاہرہ کیا جو تاریخ میں نہیں ملتی جبکہ یہی وہ بنگالی تھے جو برطانیہ کے چال کو نہ سمجھ کر جناح کی پروپگنڈے کا نظر ہو گئے اور پاکستان بنانے میں سب سے زیادہ کردار ادا کیا لیکن جلد یعنی بیس سالوں کے اندر بنگالیوں نے یہ اچھی طرح ادراک کر لیا کہ پنجابی خونخواروں کے ساتھ رہا نہیں جا سکتا، وہ پاکستانی فوج جو اپنے آپ کو اسلام کا مجاہد کہتا ہے نے بنگالی عورتوں کو پکڑ کر اُنہیں زبردستی ریپ کیا جبکہ بچوں کا سرے عام قتل کیا لیکن بنگالیوں نے جہد آزادی کی راہ کو ترک نہیں کیا اور اکتیس لاکھ بنگالیوں کی شہادت نے آخر کار رنگ لایا اور بنگلادیش پنجابیوں کی غلامی سے آزاد ہو گئیں۔
آج پاکستانی فوج وہی عمل و حرکت بلوچستان میں دہرا رہی ہے، لیکن شرم کا مقام ہے کہ وہ بلوچ جو اپنی عزت ننگ و ناموس کی خاطر ہزاروں جانیں دیتا اور لیتا تھا بڑی بڑی جنگیں بلوچ عزت و وقار کو قائم رکھنے کیلئے لڑتا تھا آج وہی بلوچ اپنے ماؤں اور بہنوں کی گمشدگی میں خاموشی اختیار کی ہوئی ہے، بلوچستان میں پاکستانی فوجیاں ہماری عزت کو تار تار کر رہیں ہیں بلوچستان کے مختلف علاقوں سے ہمارے کئی ماؤں اور بہنوں کو قابض فوج نے لاپتہ کر دیا ہے، جنہیں ٹارچر سیلوں میں مختلف اذیتوں کا سامنا رہا ہے۔ جبکہ بعض کو ریپ بھی کیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود لوگوں کی خاموشیاں باعث شرم اور چلو بھر پانی میں ڈوب مرنے کا مقام ہے۔ آج ہماری مائیں پاکستانی قید خانوں میں قید و بند ہیں اور ہم یہاں خوف کے مارے اپنی زبان کو تالا لگائے بیٹھے ہیں کہ پاکستانی فوجیوں کی زیادتی کا نشانہ بن سکتے ہیں، وہ جو دن رات فیسبک اور وٹساپ گروپ میں عزت اور ننگ و ناموس کی بات کرتے ہوئے تھکتے نہیں، اُنہیں یہاں سانپ سونگھ جاتا ہے جب لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنا کر ہمارے ماؤں اور بہنوں کو جیل میں قید کیا جاتا ہے، ہمیں اُن دلالوں اور قومی غداروں سے کوئی اُمید نہیں جنہوں نے کچھ مفاد کی خاطر پوری قوم کا پنجابیوں کے یہاں سودا لگایا ہے، ہمیں تو اُن کی خاموشی پر حیرانگی ہوتی ہے جو دن رات بلوچ عزت و وقار کی بات کرتے ہیں۔ بلوچ سماج میں عورتوں کی عزت و وقار کی بابت لیکچر دیتے ہیں، جبکہ پاکستانی فوج کے ہاتھوں آئے روز لاپتہ ہونے والے بلوچ ماؤں اور بہنوں کیلئے اُن کے منہ سے ایک بھی جملہ نہیں نکلتا ہے، جو اُن کے مکروہ چہرے کو عیان کرتی ہے۔
پاکستانی قابض فوج کے ہاتھوں بلوچ عورتوں کی گمشدگیوں کا واقعہ 1970 کی دہائی میں شروع ہوئی تھی، جب پاکستانی قابض، جابر، درندہ اور سفاک فوج نے سینکڑوں عورتوں کو حراست میں لیکر پس زندان کیا جبکہ کئیوں کو شہید کیا گیا وہی عمل 2006 میں بھی دہرایا گیا جب کوہلو اور ڈیرہ بگٹی سے کئی بلوچ عورتیں پاکستانی فوج کے ہاتھوں اغواء ہوئے، جو پاکستانی درندگی اور ہماری غلامی کے اعلیٰ مثال ہیں۔ پاکستانی قابض اور سفاک فوج اپنے ان جیسے غیر اخلاقی اور غیر انسانی حربوں سے بلوچ قومی تحریک سے جُڑے کارکنوں کو خوف سے کمزور کرنا چاہتی ہے لیکن بلوچ قوم شعوری طور پر اس جدوجہد کا حصہ ہے، اس لیئے پاکستانی سفاک لشکر کے ان مظالم سے بلوچ جہدکار کسی طور پر بھی کمزور نہیں ہونگے جبکہ ہمارا اور قابض کا رشتہ مزید روز روشن کی طرح عیاں ہوگیا ہے۔
آج ایک باشعور نوجوان بخوبی یہ علم رکھتا ہے کہ پاکستان اور بلوچ کا رشتہ کیا ہے اور دوسری جانب ان جیسے اعمال پر پاکستانی نام نہاد دانشوروں اور انسانی حقوق کے دعویداروں کی خاموشی اُن کی منافقت کو واضح کرتی ہے آج بلوچستان میں خواتین کی گمشدگی ہر گزرتے ہوئے دن مزید شدت اختیار کرتا جا رہا ہے، حالیہ دور میں بلوچ عورتوں کی گمشدگی پہلے پہل بولان و ڈیرہ بگٹی کے علاقوں میں رونما ہوئے لیکن بعد میں یہ پورے بلوچستان میں پھیلتا گیا۔ 8 نومبر 2015 کو ایک فوجی آپریشن کے دوران پاکستانی سفاک فوج نے 28 سے زائد خواتین اور بچوں کو اغواہ کیا جنہیں ملٹری کیمپ میں سخت تشدد کا نشانہ بنایا گیا آج بولان سے نکل کر یہ واقعات پورے بلوچستان میں ہو رہے ہیں۔
جون 2018 کو جھاؤ سے کئی خواتین کو اغواہ کیا گیا، جنہیں زبردستی کیمپ لے جاکر شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا بلوچ عورتوں کی گمشدگی کے واقعات یہاں تک نہیں رکے بلکہ اسی مہینے پاکستانی درندہ فوج نے مشکے سے بھی کئی بلوچ ماؤں اور بہنوں کو لاپتہ کرکے قید خانوں میں اذیت پہنچایا۔ جو بلوچ قومی، تاریخی و تہذیبی روایت کو مسخ کرنے کے برابر ہے لیکن ان پر بھی خاموشی صادر کی گئی اور پاکستانی سفاک اور بے لگام فورسز اپنے اس گھناونے عمل کو روز بروز مزید شدت دیتا آ رہا ہے رخشان اور آواران سے بھی بلوچ عورتیں اغواء ہوئی ہیں۔ بلوچستان کے ہر علاقے میں ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں جن پر عالم اقوام کی خاموشی حیرت انگیز ہے جس کی وجہ سے پاکستانی فوج بےلگام گھوڑے کی طرح بلوچستان میں ایسے واقعات کو روز بروز دہراتا جا رہا ہے۔
کل مزید پانچ بلوچ عورتیں پاکستانی فوج کے ہاتھوں لاپتہ ہوئے ہیں، جن کی شناخت خیر بی بی بنت محمد حسین، ماہ جان بنت سلیمان، سمینہ بنت علی مراد، لال خاتون بنت غلام محمدساکنان وادی ٹوبوکڈی سے ہوئی ہے جبکہ ایک خاتون کو پاکستانی درندہ فوج نے آواران پیراندار سے لاپتہ کیا ہے، جس کی شناخت گُل بہار زوجہ شہید رسول بخش کے نام سے ہوئی ہے۔ یہ گرفتاریاں اور عالم اقوام اور بلوچ حلقوں کی جانب سے خاموشی حیران کن اور سمجھ سے بالاتر ہے، آج پاکستان میں کئی تنظیمیں عورتوں کی حقوق کیلئے کام کر رہی ہیں، اُن پر گھریلو مظالم کی خلاف ورزیاں کررہی ہیں جبکہ بلوچستان میں خواتین کی جبری گمشدگیاں اُنہیں دِکھائی نہیں دے رہا جبکہ پارلیمنٹ میں بیٹھے بےشرم حکمران بھی کچھ مراعات کی خاطر خاموشی اختیار کیئے ہوئے ہیں اور بلوچ نام نہاد دانشور اور لکھاری جو صبح شام دانشوری کا راگ الاپتے ہیں لیکن یہاں اُن کی بہنیں اور مائیں اغواء ہو رہی ہیں اور وہ خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں اور نظارہ کر رہے ہیں۔
میں بلوچ دانشور، ادیب اور لکھاریوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ اپنی مجرمانہ خاموشی توڑ کر ریاستی بربریت اور سفاکیت کے بارے میں اپنے عوام کو شعور دیں اور پاکستانی فوج کی ان درندگیوں کے خلاف اپنے قلم اور شعور کو استعمال میں لائیں جبکہ انسانی حقوق کے اداروں سے بھی اپیل کرتا ہوں کہ وہ پاکستانی مظالم کا نوٹس لیکر اغواء ہوئے عورتوں کی بازیابی کیلئے کردار ادا کریں اور پاکستانی سفاک فوج پر زور دیں کہ وہ بلوچ عورتوں کی گمشدگیوں کا سلسلہ بند کر دیں جو ایک انسانی جرم کے زمرے میں آتا ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔