بلوچ قوم پرست رہنما حیربیارمری نے کہا ہے کہ ہمارے اور پشتونوں کے رابطے سترہ سوستاون کو میرنصیرخان نوری اور آحمدشاہ ابدالی کے درمیان اس معاہدے کی مطابق باہمی احترام اور ایک دوسرے کے آزادی کوتسلیم کرنے کی بنیاد پر رکھے گئے ہیں لیکن اب وقت آگیا ہے کہ ہم نئے زمانے کے تقاضوں کے مطابق ایک قدم آگے بڑھیں اور ایک ایسی تدبیرسوچیں جس سے نہ صرف وہ تاریخی دوستی برقرار رہے بلکہ کوئی دشمن اپنی سازشوں سے ہمارے درمیان دوریاں پیدا نہ کرسکے۔
انہوں نےکہا کہ میرے خیال میں اس کیلئے قابل عمل و درست فارمولہ یہی ہوسکتا ہے کہ ہم بلوچ اور افغان ایک ایسے معاہدے پر دستخط کریں جس کے مطابق ہم اپنے تمام حل طلب مسائل کاحل مذکرات میں ڈھونڈیں گےایسا معاہدہ ابھی اور بلوچستان کی آزادی کے بعد بھی ہمارے درمیان رہے جس کے مطابق اگرہم بار بارایک ہی مسلے پرگفتگوکے باوجود کسی نتیجے پر نہ پہنچے توبین القوامی ثالث اور ماہرین کے خدمات لئے جاہیں گے لیکن اس بات کے دونوں فریق پابند ہوں گے کہ ہم ایک دوسرے کے خلاف کبھی بھی کسی بھی صورت اسلحہ استعمال نہیں کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ میری نظرمیں یہ اپنی نوعیت کا ایسا پہلا غیرمعمولی معاہدہ ہوگا جس کی نظیر اس سے قبل نہیں ملتی جوبلوچوں اور افغانوں کو ایک دوسرےکےخلاف نہ صرف اشتعال انگیزی اور فساد سے روکتی ہے بلکہ اُن کے درمیان دشمنی پیداہونے کے امکانات کی روک تھام کرتی ہے۔ہمیں دونوں کو یہ سمجھنا چائیےکہ ہمارا دشمن مشترک ہے جسکی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ ہمیں آپس میں دست وگریباں کرے لیکن ایسے معاہدے کی موجودگی میں ہم مل کر اُس کے مزموم عزام کوناکام کرسکیں گے۔ کوئی بھی مشکل اُس وقت تک دشواریوں کا سبب بن سکتاہے جب تک اُس کا تشخیص نہ ہوا ہو مگر جب اُس کی درست تشخیص ہوجاتی ہے تووہ قابل حل بنتا ہے۔ ہم اور آپ اس وقت دومشکلات سے دوچارہیں ہمارا مسلہ یہ ہے کہ ہم آزاد نہیں اور آپ کامسلہ بدامنی و انتشارہے گویا ہماری خوشحالی اور ترقی ان دومسائل میں الجھی ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ آج ہم اس مشکل کی تہہ تک پہنچ کر یہ جان چکے ہیں کہ پاکستان ہی اپنی مکاریوں اور چالبازیوں سےہماری آزادی سلب کرچکاہے اورپاکستانی ہی آپ کی بدبختیوں کا سبب ہے جو آپ کو امن و چھین سےزندگی گذارنے نہیں دیتا نتیجہ یہ ہے کہ ہم دونوں کی نسل کُشی ہورہی ہے جو ایک تسلسل کے ساتھ جاری ہےجو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے۔ حقیقت حال یہ ہے کہ پنجاب ترقی کی منزلیں عبورکررہی ہے وہاں بلند وبالا بلڈنگز،مارکیٹیں بن رہی ہیں بلیک ٹاپ سڑکوں کا جال بچ رہاہے جبکہ افغانستان اور بلوچستان میں قبرستانیں بڑھ رہی ہیں مہاجروں اوربےگھرلوگوں کے تعداد میں اضافہ ہورہا ہے یتیم اور معذوروں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ ایسے موقعوں پرجب ہم اتحاد وہمبستگی کی بات کرتے ہیں توہم پر لازم ہے کہ مشترکہ دشمن کے خلاف یکجا ہوکرجدوجہدکریں جوہم دونوں قوموں کو مصیبتوں میں مبتلا کئے ہوئے ہے۔
حیر بیار مری نے کہا کہ میں نے آج تک ایسا افغان حاکم نہیں دیکھا ہے جو پاکستان کی فتنہ پردازیوں اور سازشوں سے نالاں نہیں رہا ہو۔آج افغانستان کے صدر سے لیکر عام آدمی تک یہ کہتے سُنائی دیتا ہے کہ ہمارے ملک کی ویرانی وبربادی کے پیچھے پاکستان کا ہاتھ ہے امریکہ اور نیٹوبھی یہی کہہ رہے ہیں کہ موت کے سوداگر پاکستان میں پنپ رہے ہیں پاکستان ہی اُن کو مسلح کرکےبیگناہ انسانوں کے قتل کیلئے افغانستان بھیجتا ہے ۔پاکستان کی چالبازیوں،دہشتگردوں کی پشت پناہی اور اُنھیں کھلی چھوٹ نے جہاں ہمیں جاں بلب کیا ہے وہاں امریکہ کے بھی پریشانی کا سبب بنا ہےجو امریکہ کے صدر جناب ترمپ نے اپنے نئے پالیسی بیان میں یوں اظہار خیال کیا”اس کے بعد ہم پاکستان میں دہشتگردوں کی پناہ گاہوں کی موجودگی پر خاموش نہیں رہ سکتے
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان نے بارہا دہشتگردوں کو پناہ دے کر اُنکی مدد کی ہے” تاریخ گواه ہے کہ بلوچستان بلوچوں کی حاکمیت میں کبھی بھی افغانستان کیلئے مشکلات پیداکرنے کا سبب نہیں بنا ہےجسے اب پاکستان نے دہشتگردوں کے لئے جنت بنانے کوئی کسر نہیں چھوڑی ہےتاکہ بلوچ وطن کو دہشتگردوں کے اڈے کے طورپربدنام کرکے اُس کی آڑ میں بلاامتیاز بلوچ نسل کُشی اور آزادی پسندوں کے خلاف آپریشنز کی راہ ہموارکرے آج وقت کا تقاضا یہی ہے کہ اقوام متحدہ ،امریکہ ۱فغانوں کے دوست اورخطے کے امن پسند اور انسانی حقوق کا احترام کرنے والی قوتیں پاکستان جیسے دہشتگردوں کےمعاون ریاست کے مقابلے میں بلوچ سیکولرقوت کا اُس کی آزادی کی جدوجہد میں ساتھ دیں ۔
حیر بیار مری نے کہا کہ ہم بلوچ اپنے افغان دوست امریکہ اور خطے کے امن پسند ممالک کو یقین دلاتے ہیں کہ بلوچستان میں کسی بھی دہشتگرد کو جاہ پناہ نہیں ملے گی اور ہم پاکستان کی سرپرستی میں پھیلے دہشتگردوں کی پناہ گاہوں کواُن کے لئے دوزخ میں بدل دیں گے ہم اپنے افغان بھائیوں کو یہ یقین دلاتے ہیں کہ بلوچستان کی بندرگاہیں اُن کے تاجروں کیلئے کھلے رہیں گے اس کے بدلے میں بلوچ یہ توقع رکھتے ہیں کہ افغانستان کی شاہراہیں بلوچوں کیلئے محفوظ و کھلے رہیں گے تاکہ وہ وسطی ایشیا اور اس سے آگے آزادانہ تجارت کرسکیں ۔ آپ اطمنان رکھیئے کہ بلوچستان اپنے ہمسایوں کیلئے امن کا گیوارہ اور ٹھنڈی چھاوں کی مانند رہے گا
حیربیار کا ییغام کابل میں ایک پروگرام میں پڑھ کر سنایا گیا ۔