ہمارے لئے واشنگٹن جانے کا راستہ کابل سے ہو کر گزرتا ہے – پاکستان

163

امریکی دارالحکومت میں قائم ایک تھنک ٹینک یونائٹڈ سٹیٹس انسٹی ٹیوٹ فار پیس میں منعقد ہوئے ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان اور امریکہ کے باہمی تعلقات میں بہتری افغانستان کے حالات میں بہتری پر منحصر ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے لئے واشنگٹن جانے کا راستہ کابل سے ہو کر گزرتا ہے۔

شرکا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان، افغانستان اور امریکی حکومتوں میں اس بات پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ افغانستان کے مسئلے کا حل عسکری نہیں ہے بلکہ مصالحت پر مبنی سیاسی حل ہی کامیاب رہے گا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لئے اپنا پورا اثر و رسوخ استعمال کرے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ یاد رکھنا چاہئے کہ پاکستان کا طالبان پر اثر رسوخ بہت کم ہو چکا ہے۔

دوسری جانب، اسی سیمینار میں شریک، پاکستان کے لئے امریکہ کے سابق سفیر رچرڈ اولسن کا کہنا تھا کہ پاکستانی وزیر خارجہ نے حالات کا بہت مثبت اور مناسب تعین کیا ہے اور انہوں نے اس بات کی بھی نشاندہی کی ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کے لئے افغانستان کے حالات بہت اہم ہیں۔ مگر مجھے ان کے خطاب میں کسی ٹھوس اقدام کا اعلان نظر نہیں آیا۔

 اولسن نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ پاکستان کی پچھلی دو حکومتوں میں افغانستان سے متعلق پالیسی کا کنٹرول جی ایچ کیو میں تھا۔ نئی حکومت کے لئے ہمیں ابھی حالات کا جائزہ لینا چاہئے۔

انہوں نے مزید کہا کہ وہ اس بات سے متفق ہیں کہ اس وقت پاکستان اور امریکہ کے افغان حل کے لئے نظریات میں کافی اتفاق پایا جاتا ہے۔ اور امریکہ کی موجودہ حکومت افغانستان کے سیاسی حل کے لئے بہت پرجوش ہے اور ان کے خیال میں یہ پاکستان کے بھی مفاد میں ہے۔

طالبان پر پاکستان کے کم ہوتے اثر و رسوخ پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان ابھی بھی طالبان پر کچھ نہ کچھ اثر و رسوخ رکھتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم امید رکھتے ہیں کہ پاکستان اپنے تمام ذرائع استعمال کرتے ہوئے طالبان کو مذاکرات کی میز تک لائے گا۔

انہوں نے کہا کہ وہ شاہ محمود قریشی کی اس بات سے اتفاق رکھتے ہیں کہ آخر میں طالبان نے ہی فیصلہ کرنا ہے کہ وہ مذاکرات کی میز پر آئیں گے کہ نہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ان کے خیال میں واشنگٹن پاکستانی حکومت کے اس اعلان کا خیر مقدم کرے گا کہ پاکستان افغانستان میں سیاسی حل کے لئے کردار ادا کرے گا۔

واشنگٹن میں خطاب کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ امریکی سیکریٹری خارجہ مائک پومپیو اور نیشنل سیکیورٹی کے ایڈوائزر جان بولٹن کے ساتھ ہوئی ان کی کل کی ملاقاتیں سود مند اور خوش آئند تھیں۔

انہوں نے اپنے دورہ امریکہ کے بارے میں کہا کہ ہمیں اگرچہ بار بار مایوسی، توقعات کی ناکامی اور اشتعال کی آوازیں آتی رہیں مگر ہمیں پھر بھی مثبت تبدیلی کے لئے پر امید رہنا چاہئے۔

انہوں نے کہا کہ پچھلے دو برس خاص طور پر مشکل تھے جسے دونوں  جانب سے تسلیم کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ میرے یہاں آنے کی وجہ تعلقات کو دوبارہ جوڑنا اور دوبارہ سے بنانا ہے، یہ تعلقات بہت اہم ہیں تاکہ ہمارے خطے میں مشترکہ مقاصد، یعنی امن حاصل ہو سکے۔

میڈیا کی جانب سے پومپیو سے ملاقات کی ناکامی کی خبروں کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ناکامیوں کی نشاندہی آسان ہے، مگر میڈیا کو دیکھنا چاہئے کہ پچھلے کچھ عرصے سے کیسے بیانات آ رہے تھے اور آج کے امریکی بیان کی زبان میں فرق تھا۔

امریکہ کے لئے پاکستان کی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان کی سرزمین سے پانچ لاکھ سے زائد نیٹو کنٹینر گزرے جنہیں ڈپلومیٹک کارگو کا درجہ حاصل تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ القاعدہ کے خلاف پاکستان کی کارروائیوں کو بھی دیکھنا چاہئے۔ نو سو سے زائد القاعدہ کے ممبرز کا خاتمہ کیا گیا اور گیارہ سو سے زاید کو امریکہ کے حوالے کیا گیا۔

امریکہ کی افغانستان میں ناکامیوں کی ذمہ داری پاکستان پر نہیں ڈالی جا سکتی۔ ہم افغانستان کے اندرونی معاملات کے ذمہ دار نہیں جن میں کرپشن، بری گورننس اور افغان حکومت میں عدم اتحاد ہے۔

پاکستانی وزیر خارجہ نے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے مزید کہا کہ ہماری نئی حکومت کا ایجنڈہ لوگوں سے متعلق سماجی اور معاشی تبدیلی اور ترقی ہے۔ اس کا حصول خطے میں امن اور استحکام کے ذریعے ہی ممکن ہے۔