خود سرے افسانچہ نگار کی بلا جواز تنقید
تحریر۔ سمیر جیئند بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچ نیشنل موومنٹ کے حمایت میں لکھیں بھی قاضی ریحان چڑ جاتے ہیں، قلمی نام پر موصوف کو ویسے ہی چڑ ہے۔ سرداروں و نوابوں کے بارے میں لب کشائی کریں تو وہ سراپا احتجاج ہوتے ہیں، ملاؤں کے بارے موصوف اجازت نہیں دیتے، شاید مذہبی جراثیم اتھل پھتل کرنے لگتے ہیں یعنی یہ تمام باتیں قاضی کے طبیعت کو نہیں بھاتے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیسے لکھا جائے کہ موصوف کو پسند آئے؟ ویسے قاضی ریحان آپ پر ترس بھی آرہاہے اور غصہ بھی کہ آپ اب تک خود ادبی اصناف سے نا بلد دکھائی دیتے ہیں مگرکانفیڈنس اتنا کہ میں ہی دانشور لکھاری اور اردو دان، خیر آپ کی دانش اور عرائض نویسی پر ہمیں فخر ہے لیکن آپ کالم نویسی اور مضمون نگاری کے بارے میں کسی کم علم سے ضرور پتا کرنا کہ بی این ایم بابت سمیر جیئند نے مضمون یا کالم لکھا تھا؟ اگر آپ کو معلوم ہوتا کہ یہ کالم ہی ہے تو بھی یقین ہے کہ آپ اپنا یہی افسانچہ لکھ ڈالتے جسے آپ مضمون کہتے ہیں۔ جہاں تک آپ کو میرے ( یا دوسرے میرے پیش رو ساتھیوں کا تعلق ہے) پردے کے پیچھے لکھنے پر اعتراض ہے تو اپنے بارے وضاحت یوں کروں کہ یہ الفاظ یا جملے پردے کے پیچھے ہر گز نہیں ہیں، وہ صاف شفاف پانی کی طرح ہیں مگر ہیں ادبی صنف تمثیل نگاری میں یقیناً اس صنف سے آپ دانشور ہیں علم رکھتے ہونگے۔ اگر اس عینک سے دیکھیں تو وہ واضح نظر آئیں گے اور مطلب بھی سمجھ میں آجائے گا۔ راقم کے کالم میں جو ڈرانے کا اعتراض یا نقطے کا سوال ہے تو اس کا معنی بھی تمثیل نگاری سے ہی ہاتھ آجائے گا۔ اس طرح جس طرح آپ کو کولڈ ڈرنک کی ضرورت ہے تو آپ کولڈڈرنک اسٹور جائیں گے اگر اس کی جگہ پٹرول پمپ گئے تو کولڈ ڈرنک وافر مقدار میں ہاتھ آجائے گا۔ ( آپ بھی جانتے ہیں کہ یہ باتیں ادب کا حصہ ہیں) تاہم وضاحت کرتا چلوں کہ اس میں ان لوگوں کو ڈرایا گیا یا ڈرانے کی کوشش کی گئی ہے جو بی این ایم کے بدخواہ ہیں، چاہے انکا تعلق داخلی یا خارجی سے ہے ان سے مراد لیا گیا ہے۔
بات اگراردو لکھنے کی کیجائے جیسا کہ افسانچہ نگار نے اعتراض اٹھایا ہے، تو محترم ہم نے آپ کی طرح لکھنؤ سے ماسٹر کی ڈگری حاصل نہیں کی ہے، روزمرہ زندگی میں بلوچی میں بات کرتے ہیں، بلوچی میں نازیبا کلمات اداکرتے ہیں، ہنستے بلوچی میں ہیں، نیند میں بھی بلوچی میں بڑبڑاتے ہیں۔ حتیٰ کہ ہمارے جانوروں کے نام بھی بلوچی میں ہیں تو اس کے علاوہ اتفاق ہواتو سامنا براہوئی زبان سے ہوتا ہے، سلام دعا بعد دوستوں کا اعتراض باقاعدہ ریکارڈ کیا جاتا ہے کہ سنگت بلوچی میں بات کریں کیونکہ براہوئی پر ہمیں عبور نہیں۔ جہان تک اردو کا تعلق ہے تو اسکے ساتھ دور کا رشتہ رکھتے ہیں اردو بات کرنے سے تو رہ گئے مگر ہمیں ناز ہے کہ اب تک ہم اردو ٹوٹا پھوٹا لکھ لیتے ہیں۔ اگر بالکل نہ لکھیں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھیں تو رفقا ء کے طعنیں سننے پڑتے ہیں۔ بس وہی بلوچی انا ہے اتنا لکھتے ہیں کہ رفقاء کو احساس ہوکہ اب تک وجود رکھتے ہیں، سلامت ہیں۔ گویا لکھنا بھی پردے میں دوستوں کو پیغام بھیجنے کیلئے ہے کہ لو میرے وجود کا ثبوت ہے۔
بات کتابیں چاٹنے کی ہے تو محترم قاضی، کاش! ہم کتاب پڑھتے، ہمیں کتاب دستیاب ہوتا، کتاب اپنی جگہ لے دے کر ایک رسالہ سنگر ہوتا تھا۔ تاہم اب آپ کے مہربانی سے ہمارے علم میں اضافہ ہواکہ کتاب کو بھی لیمو کی طرح چاٹا جاسکتا ہے، آئندہ آپ کے مشورے سے ضرور فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے کیونکہ یقیناً آپ قابل احترام ہیں، آپ شہر میں اپنے تجربے سے بتا رہے ہو، عمل کرنے کی کوشش کریں گے۔ تاہمَ بلوچی جڑی بوٹی کی طرح اگر فائدہ نہیں پہنچ سکا، تو نقصان بھی نہیں دیگا۔
ویسے قاضی ریحان، آپ بھی جانتے ہیں اور ایگری کریں گے کہ اردو خود پیدائشی زبان نہیں ہے، وہ دوسرے آٹھ نو زبانوں سے مل کر بنا ہے۔ جس میں بلوچی، براہوئی، سندھی اور انگریزی کی خمیر بھی رچ بس گئی ہے، لہٰذا انہیں زبانوں میں سے اکثر اپنے کالم، مضمون، انشائیہ، خطوط وغیرہ کے ادبی اصناف میں استعمال کرتا ہوں۔ پھر اس پر آپ کی جانب سے تنقید برائے تنقید ذریعے ہم پر اپنے علم اوردانش جھاڑنے کی ضرورت اور دقت کیوں محسوس ہوتی ہے؟ اگر تنقید برائے تعمیر کرتے تو ہمارے اصلاح ہوتی خیر آئندہ اپنے اصلاحی تنقید میں ہمیں یاد ضرور رکھیں کیونکہ تنقید بذات خود آئینہ ہے ( یاد ہو آئینہ کے دو رخ ہیں) تعمیری تنقید سے آپ نہ گھبرائیں کھل کر ایمانداری سے تنقید کریں، اپنا تعمیری موقف واضح کرکے ہر کسی کے سامنے رکھیں اور وکیل کے نگاہ سے دیکھیں، جس طرح دونوں فریقین کے وکلاء اپنا پنا موقف جج کے سامنے رکھتے ہیں، یہاں پھر جج بننے کی کوشش خود نہ کریں تو رزلٹ اور فیصلہ بہترین آئیگا۔
حق خود ارادیت بارے قاضی ریحان معذرت کے ساتھ آپ نے منافقت یا چوری کی ہے ( ادبی زبان میں کسی کے الفاظ بغیر حوالے اپنے نام کرنا علم کی چوری کہلاتا ہے) یہاں آپ نے یا بی این ایم کے موصوف دلمراد نے محض حق خود ارادیت کو میرے کالم کے ساتھ جوڑا ہے حالانکہ میں نے حق خود ارادیت کے ساتھ’’بشمول حق علٰحیدگی‘‘ جوکہ بشمول پرنٹ ہوا ہے بھی لکھا تھا، اگر اسے مکمل لکھا جائے تو حق خود ارادیت بشمول حق علیحد گی جملہ بنتا ہے، سیاسی زبان میں اسے آزادی کہا جاتا ہے۔ اب اس پر آپ نے اپنے افسانچے اور دلمراد نے اپنے ٹویٹ میں ایک نومولود لفظ کو اٹھا کر سیخ پا ہیں کہ ہم نے دو ہزار آٹھ کے سیشن میں رائی کا پہاڑ بنا دیا، یہ بین الاقوامی جملہ ہے آپ اسے حذف کرکے آزادی رکھیں بھی ٹھیک، سیاق و سباق وہی ہے۔ کان کو دائیں ہاتھ سے پکڑیں یا بائیں سے فاصلہ ایک ہی ہوگا۔
قاضی ریحان اور دلمراد بلوچ آپ لوگوں کے شاید علم میں نہیں ہے کہ میں بلوچ نیشنل مؤومنٹ کے فاونڈنگ (اگر آپ لوگوں کو ناگوار نہ گذرے) ممبر ہوں، پہلے سیشن میں جو کابینہ بنی شہید واجہ غلام محمد کی صدارت میں ( ہاں مجھے یاد ہے پھر آپ لوگوں نے صدر کو حذف کرکے چیئرمین رکھا) جو کابینہ بنی، اس میں میں سینٹرل کمیٹی کا ممبر تھا اور اب ترقی کرکے ایک ورکر کی حیثیت سے اپنے فرائض گمنامی کی صورت میں سر انجام دے رہا ہوں۔ اس طرح میرے علاوہ ہمارے کابینہ کے لیبر سیکٹری جو صاحب ہوا کرتے تھے آج وہ بھی ترقی کرکے بی این ایم کا ممبر غالباً بنا دیا گیا ہے۔ باقی کابینہ یا سی سی کے ممبر لاوارث ہیں نہ جانے کب بی این ایم انہیں گود لے گی مگر مجھے قوی امید ہے کہ جس طرح، جب بھی بی این ایم کے سیشن ختم ہونے بعد مجھے اطلاع ملی ہے کہ سیشن ہوگیا اس طرح بی این ایم کے ذمہ داروں کو اب علم ہوگا کہ ہمارا ایک یہ بھی ممبر ہے اگر انھیں ضرورت پڑی ورنہ اعتراض کیا جائے گا کہ تم تو ممبر ہی نہیں ہو اسے مفروضہ ہی فلحال رہنے دیں۔
بی این ایم کیوں سیاسی پارٹی نہیں بن سکتا؟ قاضی اس عنوان پر آپ نے اعتراض اٹھایا ہے، تو میں نے اپنے کالم میں اسی کو تو زیر بحث لانے کی کوشش کی ہے۔ اس بارے میں اب وضاحت کروں کہ میں نے لکھا تھا کہ سیاسی دوستوں خصوصاً صورت خان کے انٹرویو کے تناظر میں کہ انہوں نے کہا تھا کہ بلوچوں کو مشترکہ سیاسی پارٹی کی ضرورت ہے، تو اس بابت میں نے کافی سارے سیاسی دوستوں سے بات کی آپ بھی جانتے ہیں کہ ایک صحافی کے ناطے اگر کوئی سیاسی بحث ہاتھ آئے تو ہم سیاسی ورکر یا کسی تنظیم کے ورکر یا عہدیدار اس کا رائے جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ تو اس طرح یہاں بھی رائے جاننا چاہا تو ایک طبقہ یہ سامنے آیا کہ بی این ایم ایک سرکل میں محدود ہے، تو میں سرکل کے مخالفت اور بی این ایم کے حق میں لکھا کہ کیوں نہیں ہوسکتا؟ اس کے اسباب جو کالم میں سما سکتے تھے درج کئے۔
اس مضمون میں بھی سراپا احتجاج ہوں کہ بی این ایم ایک قومی پارٹی ہے، اسے سرکل کہنا اس کی توہین ہے۔( یہ تمام باتیں پردے میں کہے گئے ہیں) بی این ایم شاید اسلیئے قومی پارٹی نہیں بن سکتا کہ اسکے چیئرمین سے لیکر ورکر تک مڈل متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، اگر انکی جگہ نواب و سردار ہوتے تو سب کیلئے قابل قدر ہوتا اور قومی پارٹی بھی یہی کہلاتا، یہ اور اس طرح مذید کہاتھا کہ بی این ایم واحد پارٹی ہے جس میں فرقہ، مسلک، ذات پات، اونچ نیچ نہیں ہے۔ جو بھی قابل ہو اسے یہاں پورا موقع دیا جاتا ہے کہ وہ قومی خدمت میں اپنا حصہ ڈال سکے۔ لیکن ان خیالات پر تنقید برائے تنقید قاضی میرے سمجھ سے بالاہے۔
آخر آپ کیا چاہتے ہیں کہیں آپکا خیال کسی کو نیچا دکھانا تو نہیں ہے؟ قاضی محترم لگے رہو آئندہ آپ کے مثبت تعمیری نظریاتی ادبی تنقید کا انتظار رہے گا، دل کھول کر تنقید کریں رنگ میں بھنگ نہ ڈالیں۔ ایک اور وضاحت بھی کرتا چلوں کہ صحافت میں قلمی نام اس طرح ضروری ہے جس طرح ایک گوریلا کا قلمی نام یعنی قلمی نام صحافی کا شہہ رگ کہا جاتا ہے، اس پر قاضی ریحان آپ کاچڑ جاناجائز ہے کیونکہ آپ نے ماس کمیونیکیشن پڑھاہی نہیں ہوگا، اگر پڑھتے تو اس کا ادراک ضرور رکھتے۔
دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔