ایک نئی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ دوسری جنگ عظیم میں اتحادی افواج کی جانب سے جو بم برسائے گئے وہ اتنے طاقتور تھے کہ ان سے کرۂ ہوائی کو نقصان پہنچا ہے۔
تحقیق میں کہا گیا ہے کہ فضائی حملوں نے قصبوں کو راکھ اور ملبے کا ڈھیر بنا دیا لیکن تحقیق سے معلوم چلا ہے کہ بم گرنے سے پیدا ہونے والی شاک ویو برطانیہ کے اوپر ایک ہزار کلومیٹر تک محسوس کی گئی تھی۔
برطانیہ کی ریڈنگ یونیورسٹی کے کرس سکاٹ کا کہنا ہے ’جب مجھے یہ معلوم چلا ہے تو میں ہکا بکا رہ گیا۔ ہر فضائی حملے سے 300 آسمانی بجلی گرنے کے برابر توانائی پیدا ہوئی۔‘
اس نئی تحقیق سے امید کی جا رہی ہے کہ یہ معلوم کرنے میں مدد ملے گی کہ قدرتی فورسز جیسے آسمانی بجلی، آتش فشاں اور زلزلے کیسے کرۂ ہوائی کو متاثر کرتی ہیں۔
ہمیں کیسے معلوم ہوا؟
تحقیق دانوں نے سلو کے علاقے میں ریڈیو ریسرچ سینٹر کے روزانہ کے ریکارڈز کا مطالعہ کیا۔
انھوں نے اس بات کا مطالعہ کیا کہ یورپ میں اتحادی فوج کی جانب سے 152 فضائی حملوں بشمول برلن اور نارمنڈی پر فضائی حملوں کے دوران کرۂ ہوائی میں الیکٹرون میں کیسے تبدیلی آئی۔
اتحادی افواج کی جانب سے دوری جنگ عظیم میں فضائی حملے 1942 میں شروع ہوئے اور اس سے جو تباہی ہوئی اس کی کوئی مثال نہیں ہے۔ جرمنی کے شہر جیسے ڈریسڈن اور ہیمبرگ ملبے اور راکھ کے ڈھیر بن گئے۔
ریڈیو ریسرچ سینٹر کے ریکارڈ کے مطالعے سے معلوم چلا کہ جب بھی بم گرا اس وقت ایلکٹرون میں کمی واقع ہوئی جس سے کرۂ ہوائی کی گرماہٹ میں اضافہ ہوا۔
تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ اگرچہ سلو سے سینکڑوں میل دور بمباری ہوتی تھی لیکن اس علاقے کے کرۂ ہوائی میں الیکٹرون میں کمی واقع ہوئی۔
تاہم کرس سکاٹ اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ بمباری کے باعث کرۂ ہوائی میں اضافہ اور گرمی میں اضافہ معمولی تھا۔
’کرۂ ہوائی میں تبدیلی صرف اس وقت تک رہتی تھی جب تک بمباری کے گرم اثرات ختم نہیں ہو جاتے تھے۔‘
کرۂ ہوائی کے بارے معلومات کیوں ضروری؟
کرۂ ہوائی سے ہماری ریڈیو مواصلات، جی پی ایس نظام، ریڈیو ٹیلی سکوپس اور یہاں تک کہ موسمی نظام کو جاننا متاثر ہو سکتا ہے۔
کرس سکاٹ کہتے ہیں ’اگر کرۂ ہوائی کو مکمل طور پر سمجھنا ہے تو کرۂ ہوائی کے حوالے سے یہ تحقیق بہت اہم ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ابھی تک ہمارے پاس یہ معلومات ہیں کہ شمسی توانائی سے کرۂ ہوائی متاثر ہوتا ہے لیکن اس سے کہیں زیادہ جاننے کی ضرورت ہے۔
یہ تازہ تحقیق یورپی جیو سائنسز کے جرنل میں شائع ہوئی ہے۔