ماما یاد ہے جنیوا کیوں گئے ہو؟ ۔ سمیر جیئند بلوچ

412

ماما یاد ہے جنیوا کیوں گئے ہو؟

تحریر۔ سمیر جیئند بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

جب ہم چھوٹے تھے تو بڑے اکثر کہا کرتے تھے کہ بڑے شہر جانے سے آدمی لٹ جاتا ہے، ہم حیران تھے کہ کیسے ایک آدمی شہر میں لٹ سکتا ہے کیونکہ اس وقت ہمارے ذہن میں تھا کہ چھوٹے بچے سے تو کوئی چیز چھینا جاسکتا ہے مگر ایک بڑے آدمی سے یہ ہمارے وہم گمان میں نہ تھا، بس ہم یہی سمجھتے تھے کہ شاید ہمیں ڈرانے کیلئے ایسا کہہ رہے ہیں کہ یہ کہیں شہر جاکرچیزیں گم نا کردیں یا خود گم نہ ہو جائیں؟ ان جیسے کئی اور سوال ذہن میں آکر خود تحلیل ہوجاتے تھے اور یوں یہ کشمکش اور کنفیوژن اس وقت دور ہوا جب ہم خود اس اسٹیج پر پہنچ کر، خود مشاہدہ کرلیا۔

مشاہدے کے بعد اس دن سے جنم لینے والے تمام خدشات اور سوچ خود بخود زائل ہونے لگے یعنی منفی سوچ رکھنے کے بجائے اس میں مثبت سوچ داخل ہوا۔ اب یہ سب کچھ ہمارے سامنے مساجد کے عین سامنے، ٹرانسپورٹ کی جگہ جہاں دیہات کے گاڑیاں آکر رکتے تھے، وہ ہوٹل جہاں سادہ لوح آکر ٹہرتے یا کھانا کھاتے تھے یا اس عوامی جگہ پر جہاں سیدھے سادے لوگ جمع ہوجاتے تھے۔ تو وہاں ٹھگوں کا تانتا بندھ جاتاتھا، اور یہی جگہ مختلف ٹھگوں نے ایک دوسرے پر تقسیم کررکھا ہوتا تھا اور جیسے ہی شکار کا وقت نکل جاتا، شام کو تمام ایک جگہ جمع ہوکر اپنے داستان سناتے تھے کہ کس طرح انہوں نے انکے سادگی کم علمی، جہالت، مذہب، نفسیات کا فائدہ اٹھاکر انہیں اپنے اعتماد میں لیکر اسکے جیب کا صفایا کردیا کہ آخر میں وہ بھیک مانگنے پر مجبور ہوا۔ سب کچھ ہونے کے باوجود بھی انہیں ذرا بھر پشیمانی نہیں ہوتا ہوگا کہ وہ اپنے مرضی سے لٹ گیا۔ یہاں قابل ذکر بات یہ کہ ان مختلف جگہوں پر ٹھگ وہی روپ دھار کر سادہ لوح انسان کے جیب کا ستیا ناس بڑی آسانی سے کرجاتے ہیں، جیسا وہ خود چاہیں۔ اسی طرح دوسری بڑی خاندانی نسلی ٹھگوں کا تعلق سیاست سے ہے، وہ بھی ان تھڑوں کے ٹھگوں کی طرح، انسان کے مجبوریوں سے فائدہ اٹھاکر اسے لوٹتے ہیں، مگر یہاں خیال رکھا جاتا ہے کہ لٹنے والا لٹنے کے بعد بھی بھکاری کے اسٹیج کو پہنچ نہ پائے اگر وہ اس اسٹیج پر پہنچا تومستقبل میں یہ سلسلہ ہمارے صحت اور مفادات کیلے اچھا نہ ہوگا، چنانچہ اپنا جھولی مکمل بھرنے کے بعد اس کے کشکول میں بھی کچھ نہ کچھ بطور احسان ڈال دیتے ہیں کہ آئندہ وہ ہمارے احسان مند رہے کہ یہ سب کچھ ان کی وجہ سے ہے یعنی اپنے وجود سے بیگانہ ہوجائے کہ انکے کمائی کا وجہ وہ رہے۔

اسی طرح کا واقع حالیہ دنوں بلوچ سیاست کے نام اور بلوچ مسنگ پرسنزکے بازیابی کیلئے بھرپور جدوجہد کرنے والے سادہ لوح شخصیت ماما قدیر کے ساتھ بھی پیش آرہا ہے، وہ جانے انجانے میں ایندھن بن رہاہے یا ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ دیہات سے شہر پہنچ کر ٹھگوں کے نرغے میں پھنس گیا ہے یا اپنے آپ کو پھنسا دیا ہے، یہ شعوری یا لاشعوری ہے آنے والے وقت میں مورخ بتا پائیں گے تاہم براہوئی کا متل ہے کہ ’’ اگہ خرما جوڑی مس تو کھرنا مون پیہن مریک‘‘ تو اسی طرح ماماقدیر کا جنیواء پہنچنے پر سامنا دو بھیڑیوں سے ہوا ہے، حالانکہ دیکھا جائے تو ماما جوکہ روایتی بلوچ ہیں سیاست کے جھل برز سے قدرے ناواقف ہیں، انکا سیدھا سادہ مطلب وہاں جانے کا یہی ہے کہ وہ کسی طرح تقریباً نصف لاکھ مسنگ بلوچوں کا مسئلہ وہاں پیش کریں تاکہ پاکستان کے ایجنسیوں اور فوج کے کارستانیوں بابت کوئی سبیل نکالے۔ یہ سب کرنے کیلئے ماما نے ادھار مدھار کرکے یہاں وہاں سے کرایہ کرکے جنیواپہنچ گئے، مگر جوڑیدار بھیڑیوں کے ہتھے چڑھ گئے۔اب انکے رحم کرم پر ہیں کہ وہ کہاں کہاں کس کس سے بات کرنے یا مشورہ کرنے دیتے ہیں، یہ انکی صوابدید پر ہے۔

یہاں قابل توجہ بات یہ کہ ماما بجائے انکے اگرکسی پارٹی یا تنظیم کا سہارالیتے تو سود مند تھا، مگر انہوں نے ایسا کیوں نہیں سوچا جنہیں ثانوی اسٹیج پر ہونا چاہے تھا وہ فرسٹ اور جنھیں فرسٹ پر ہونا چاہے وہ سیکنڈ فیز پر رکھے گئے ہیں۔ اب یہ ماما کی ذمہ داری ہے کہ وہ سوچ لے کہ میں جس مقصد سے آیا یا بھیجا گیا ہوں اس کیلئے یہاں کسی این جی اوز کا سہارالوں یا کسی سیاسی جماعت اور تنظیم کا؟ کم سے کم ٹھگوں کا سہارا نہ لیتے، مانا کہ انسان دانا ہے مگر اس نادان سے ایک بار آنکھیں دوچار کرنا چاہیئے۔ اس این جی او کے دو ٹھگوں کے بجائے وہ بلوچ نیشنل موومنٹ، بلوچستان ریپبلکن پارٹی یا دوسرے آزادی پسندوں سے بھی مشورہ کرلیتے تو یقیناً اسے اتنا گائیڈ لائین حاصل ہوجاتا اور انھیں سمجھایا جاتا کہ یہاں کوئٹہ پریس کلب کے پاکستانی صحافی نہیں ہیں کہ ان سے آپ مخاطب ہوکر گلہ شکوہ کریں یا جذباتی پن دکھائیں یہاں مزاج الگ ہیں، انکے سننے کی نفسیات الگ ہے، انھیں انکی بھاشا میں اپنے اوپر ہونے والے مظالم بتائیں۔ یہ اور ان جیسے کئی باتیں اور سوالات ہیں جوکہ جواب کے منتظر ہیں۔

اب ماما کی پہلی ذمہ داری اور فرض منصبی ہے کہ وہ کس طرح ٹھگوں کے جال سے اپنے آپ کو نکال لیتے ہیں۔ اگر اس میں کامیاب ہوئے تو یہ مسنگ پرسنز کے خاندان کے ساتھ ایک انصاف کہلائے گا۔ مسنگ پرسنز کو یقین ہے کہ جب اللہ پاک ایک چیونٹی کو پتھر کے اند ر دانا دے سکتا ہے، تو انکے مسنگ پرسنز کی حفاظت بھی کرسکتا ہے۔ لہٰذا مسنگ پرسنز ماما کیلئے دعا گو ہیں کہ وہ جتنی جلدی ہو اپنے آپ کو اس بھنور سے نکال دیں کیونکہ اس صورت میں لینے کے بجائے دینا نہ پڑجائے۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔