اقوام متحدہ کے انسانی حقوق سے متعلق معاملات کے سربراہ کے مطابق باغیوں کے زیر قبضہ شامی صوبہ ادلب میں اگر بڑی فوجی کارروائی کی گئی تو اس کا نتیجہ اس صدی کے بدترین انسانی المیے کی صورت میں نکل سکتا ہے۔
مارک لوکوک نے جنیوا میں صحافیوں کو بتایا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس معاملے سے نمٹنے کے دیگر طریقے تلاش کیے جائیں ورنہ یہ 21ویں صدی میں انسانی جانوں کے سب سے بڑے زیاں کا سبب بن سکتا ہے۔
یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب شامی فورسز اپنے اتحادیوں روس اور ایران کے ساتھ ادلب میں ایک بڑے فوجی آپریشن کی تیاری کر رہی ہیں۔
دریں اثناء دوسری جانب اقوام متحدہ نے پیر کے روز کہا ہے کہ شام کے شمال مغرب میں باغیوں کے آخری مضبوط ٹھکانے ادلیب پر سرکاری فورسز اور ان کے اتحادیوں کے حملے کے بعد تقریباً 30 ہزار افراد اپنے گھر بار چھوڑ کر محفوظ مقامات کی طرف جا چکے ہیں۔
شام اور روس کی مشترکہ فورسز نے صوبہ ادلیب اور قریبی علاقے حمص کے کچھ علاقوں میں گزشتہ چند روز سے بم برسانے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔
اس علاقے میں وہ حکومت مخالف گروپ موجود ہیں جو القاعدہ اور مخالف گروہوں سے منسلک ہیں۔
شام حکومت کے فوجی دستے پچھلے چند ہفتوں سے علاقے میں اکھٹے ہو رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کے انسانی فلاح و بہبود سے متعلق انڈر سیکرٹری جنرل مارک لوکاک نے خبردار کیا ہے کہ زمینی حملے نتیجہ اس ملک کے لیے اب تک کے سب سے زیادہ جانی نقصان کی صورت میں برآمد ہو سکتا ہے۔
لوکاک کا کہنا ہے کہ جنگ سے بچنے کے لیے لگ بھگ 8 لاکھ افراد علاقہ چھوڑ کر فرار ہو سکتے ہیں جو ادلیب کی 30 لاکھ آبادی کی اس نصف تعداد سے زیادہ ہے جو پہلے ہی شام کے مختلف حصوں میں نقل مکانی کر چکے ہیں۔
سن 2011 میں صدر بشار الاسد کے جبر کے خلاف شروع ہونے والے مظاہروں کے بعد سے اب تک ساڑھے تین لاکھ افراد ہلاک اور لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں۔
ادلیب کے مستقل کے بارے میں پچھلے ہفتے ترکی، ایران اور روس کے راہنماؤں کے درمیان تہران میں ملاقات ہوئی تھی۔ لیکن یہ بات چیت علاقے میں جنگ کو ٹالنے کی کوششوں پر تعطل پیدا ہونے سے بے نتیجہ رہی تھی۔