بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی ترجمان نے نوشکی میں پاکستانی فورسز کی کارروائی، ایک بلوچ جوان کی شہادت اور گرفتاریوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کی صورتحال ہر آئے دن اور نئی حکومت کے ساتھ بد تر ہوتی جارہی ہے۔ نوشکی میں ایک بلوچ فرزند نظام ولد پیر محمد ساسولی کو مشتبہ قرار دیکر شہید کیا اور گیارہ لوگوں کو گرفتار کیا جس کا فورسز سمیت روز نامہ جنگ اور دوسرے میڈیا میں اعتراف کیا جا چکا ہے۔
بی این ایم ترجمان کا کہنا تھا کہ بلوچوں کیلئے سفر آمد و رفت اور گھر سے باہر نکلنا محال بنا دیا گیا ہے۔ پاکستانی فورسز کو جہاں کہیں کوئی بلوچ ملے اُسے دہشت گرد قرار دیکر قتل کیا جاتا ہے یا اغواء کرکے لاپتہ کیا جاتا ہے۔نوشکی سے اغوا ءشدگان کا اعتراف کرنے کے باوجود انہیں منظر عام پر نہیں لایا گیاہے۔
بی این یم کے مرکزی ترجمان کا کہنا تھا کہ ہمیں خدشہ ہے کہ ماضی کی طرح انہیں بھی کئی سالوں تک خفیہ زندانوں و اذیت خانوں میں رکھ کر شہید کی جائے گا۔ یہ ماورائے عدالت قتل اور گرفتاریاں انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی اور بین الاقوامی قوانین کی پامالی ہے۔
ترجمان نے کہا کہ ریاستی دہشت گردی کی وجہ سے بلوچ قوم نسل کشی کا شکار ہے مگر پاکستان کی خطے میں مذہبی شدت پسندی سے دنیا نے بلوچ مسئلہ کو نظر انداز کیا ہے۔ اس سے فائدہ اُٹھا کر پاکستان نہ صرف بلوچ نسل کشی میں مصروف ہے بلکہ بلوچستان و خطے سمیت دوسرے ملکوں میں اسلامی شدت پسندوں کی آبیاری کر رہا ہے۔
ترجمان نے کہا کہ اس صدی کے شروع میں مشرف کی فوجی حکومت کے دوران بلوچوں کو اغوا ءکرکے اکثریت کو شدید تشدد کے بعد رہا کیا جاتا تھا۔ آصف زرداری اور پی پی پی کی دورِ حکومت میں صرف مسخ شدہ لاشیں برآمد ہوئیں جبکہ مسلم لیگ ن اور ڈاکٹر مالک کے دور میں اجتماعی قبریں دریافت ہوئیں اور آپریشن اور اغوا ءاور قتل میں بھی تیزی لائی گئی۔ ساتھ ہی جعلی انکاؤنٹر کی پالیسی کا بھی اضافہ کیا گیا۔ اب عمران خان اور جام کمال نے انہی پالیسیوں کو جاری رکھتے ہوئے اپنی حکومت کے پہلے دو ہفتوں میں کئی بلوچوں کو اغواء شروع کردیا جس میں کراچی میں بی این ایم ممبر کی مسخ شدہ اور اب نوشکی میں بلوچ فرزند کی شہادت اور کئی گرفتاریاں انہی مظالم کا تسلسل ہیں جو بلوچ قوم پاکستان کے ہاتھوں ستر سالوں سے سہہ رہی ہیں۔