پاکستان میں جبری گمشدگیوں میں اضافہ ہوا ہے – رپورٹ

320
File Photo

سندھ میں لاپتہ سیاسی کارکنوں کی جبری گمشدگی کے خلاف سرگرم مشتاق زہرانی خود بھی لاپتہ ہو گئے ہیں۔

ان کے والد لونگ زہرانی کا کہنا ہے کہ مشتاق 28 جولائی کو لاڑکانہ شہر میں اپنے دوستوں کے ساتھ گئے تھے، شام چار بجے کے بعد سے ان کا موبائل پر رابطہ نہ ہو سکا جس کے بعد سے وہ لاپتہ ہیں۔

مشتاق زہرانی کا تعلق جئے سندھ آریسر گروپ سے تھا جبکہ وہ مال مویشی کا کام کرتے تھے۔

لونگ زہرانی کا کہنا ہے کہ پولیس نے ایف آئی آر درج کرنے سے بھی انکار کر دیا ہے جس وجہ سے وہ ہائی کورٹ میں آئینی درخواست دائر کریں گے۔

پاکستان میں جبری گمشدگیوں کا رجحان دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بعد سامنے آیا اور 2007 میں بلوچستان میں قوم پرست رہنما نواب اکبر بگٹی کی ہلاکت کے بعد بلوچستان اور پھر سندھ میں شدت اختیار کر گیا۔

لاپتہ افراد کی اصل تعداد کتنی ہے حتمی اعداد وشمار سرکاری اور غیر سرکاری اداراوں دونوں کے پاس دستیاب نہیں ہیں۔

گذشتہ ایک دہائی میں لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے چار تنظیمیں وجود میں آ چکی ہیں، جس میں آمنہ جنجوعہ کی ہیومن رائٹس ڈفینڈر کا اندازہ ہے کہ دس ہزار کے قریب لوگ لاپتہ ہیں۔

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا دعویٰ ہے کہ 20 ہزار کے قریب بلوچ لاپتہ ہیں، جب کہ وائس فار سندھی مسنگ پرسنز کا تخمینہ ہے کہ 2001 سے سندھ سے 50 سندھی کارکن تاحال لاپتہ ہیں۔

دوسری طرف حال ہی میں جنم لینے والی پشتون تحفظ موومنٹ کا کہنا ہے کہ آٹھ ہزار پشتون لاپتہ ہیں۔

جبری گمشدگیوں کے بارے میں قائم کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق ان کے پاس 5075 شکایات موصول ہوئی ہیں۔ اس کے مقابلے پر رواں سال کے صرف ابتدائی چھ ماہ میں 605 درخواستیں موصول ہوئی ہیں جو ایک ریکارڈ کی نشاندہی کرتا ہے کیونکہ گذشتہ سال کے 12 ماہ میں بھی کل 868 درخواستیں آئی تھیں۔

وائس فار مسنگ پرسنز آف سندھ کے کنوینر سورٹھ لوہر کا کہنا ہے کہ رواں سال اپریل سے جبری گمشدگیوں میں دوبارہ تیزی آئی ہے صرف اگست کے مہینے میں 20 کے قریب نوجوان اٹھائے گئے بعض کو ایک ہفتے کے بعد رہا کر دیا گیا جبکہ کچھ پر مقدمات بنائے گئے ہیں۔

خیرپور سے چار اگست کو طالب علم نصراللہ جمالی جبری طور پر لاپتہ کر دیے گئے تھے۔ نصراللہ تقریباً 20 روز بعد رہا کر دیے گئے۔

اس سے قبل بھی انھیں گذشتہ سال لاپتہ کیا گیا تھا۔ نصر اللہ کے بھائی ثنااللہ کے مطابق گذشتہ سال سات ماہ قید گزارنے کے بعد نصراللہ کی دھماکہ خیز مواد سمیت گرفتاری ظاہر کی گئی تاہم بعد میں عدالت نے انھیں اس الزام سے بری کر دیا۔

رہا ہونے کے ایک ہفتے بعد گاؤں کا گھیراؤ کر کے انھیں دوبارہ اٹھا لیا گیا مگر اہل خانہ کے احتجاج اور عدالت میں پٹیشن کے بعد رہا کر دیا گیا۔

پاکستان میں جبری گمشدگیوں پر اقوام متحدہ، ایمنیٹسی انٹرنیشنل اور انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹ کے علاوہ پاکستانی انسانی حقوق کمیشن تشویش کا اظہار کرتے آ رہے ہیں۔ رواں سال سے پاکستان کو انسانی حقوق کونسل کا رکن بھی منتخب کیا گیا ہے۔

دنیا میں جبری گمشدگیوں کی شکایات پر اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ نے پاکستان میں بھی شکایات سنی تھیں، اس گروپ کی موجودگی میں ہی 57 نئی شکایات سامنے آئی تھیں۔

گروپ نے اپنی سفارشات میں انسانی حقوق کے عالمی چارٹر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ کوئی بھی حالات ہوں لیکن جبری گمشدگیوں کا جواز مہیا نہیں کیا جا سکتا اور کسی بھی شخص کو حراست میں لینے کے بعد اس کی منتقلی کی معلومات خاندان اور وکلا کو فراہم کرنا لازم ہے۔

انسانی حقوق کمیشن نے اپنی 2017 کی جائزہ رپورٹ میں قرار دیا ہے کہ جبری گمشدگیوں کے متعدد واقعات نے پاکستان میں انسانی حقوق کو شدید خطرات سے دوچار کیا ہے۔

جبری گمشدگیوں سے متعلق تحقیقاتی کمیشن کو اپنے مینڈیٹ کے حصول کے لیے جو آزادی اور مالی وسائل درکار تھے وہ پاکستان حکومت کے لیے چیلنج بنے رہے اور کمیشن جبری گمشدگیوں میں ملوث افراد کے خلاف قانونی کارروائی کرنے میں ناکام رہا۔

اسی طرح پاکستان جبری گمشدگیوں سے تحفظ فراہم کرنے کے عالمی معاہدے کی توثیق کرنے اور جبری گمشدگیوں کو خاص طور پر جرم قرار دینے میں بھی ناکام رہا۔

پاکستان میں جبری لاپتہ افراد کی کئی آئینی درخواستیں عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔ صرف سندھ ہائی کورٹ میں ان کی تعداد ڈیڑھ سو سے زائد ہے۔

تمام متاثرہ خاندان عدالتوں سے رجوع نہیں کر پاتے۔ بعض خاندانوں نے بی بی سی کو بتایا کہ وکلا کی کم از کم فیس ایک لاکھ روپیہ ہے جو ان کی پہنچ سے دور ہے۔

رواں سال ہی اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس اطہر من اللہ نے ایک درخواست پر فیصلہ دیتے ہوئے جبری گمشدگی کو انتہائی ظالمانہ و غیر انسانی عمل کے ساتھ انسانیت کے خلاف جرم قرار دیا تھا۔

اپنے فیصلے میں انھوں نے حکومت کو ہدایت کی تھی کہ لاپتہ افراد کے خاندانوں کو معاوضہ ادا کیا جائے کیونکہ شہریوں کے تحفظ کی ذمہ داری ریاست پر عائد ہوتی ہے۔

ان کے اس فیصلے کے خلاف وزرات دفاع، وزارت داخلہ اور اسلام آباد حکام نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی ہے۔

سندھ میں جبری طور پر لاپتہ کیے گئے افراد کے اہل خانہ کے احتجاج کا سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے از خود نوٹس لیا تھا اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ہدایت کی تھی کہ لاپتہ افراد کا پتہ لگانے کے لیے ایک خصوصی سیل بنایا جائے اور سپریم کورٹ کو بھی اس میں شامل رکھا جائے۔

وائس فار مسنگ پرسنز آف سندھ کے کنوینر سورٹھ لوہر کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس کی ہدایت پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ انھیں نہ کوئی کال آئی ہے اور نہ ہی کوئی پیغام موصول ہوا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ‘عدالتوں میں جو بھی مقدمات دائر ہوئے ہیں ان میں بھی کوئی ریلف نہیں مل سکا۔ آج تک ایک بھی لاپتہ شخص کو عدالت کے حکم پر پیش نہیں کیا گیا۔ عدالتوں میں یہ ادارے آ کر کہتے ہیں کہ لاپتہ شخص ہمارے پاس نہیں ہیں جبکہ چند ماہ بعد ان میں سے کچھ کو ظاہر کر کے مقدمات دائر کر دیے جاتے ہیں۔‘

سورٹھ لوہر کے والد ہدایت اللہ لوہر گذشتہ ایک سال سے لاپتہ ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ وکلا بھی خوفزدہ ہوتے ہیں۔ اگر کسی خاندان کے پاس کوئی ٹھوس ثبوت یا شواہد موجود ہوتے ہیں اور وہ پولیس یا عدالت کو دینا چاہتے ہیں تو وکلا اس کی مخالفت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس سے آپ کی اور آپ کے خاندان کی سیکورٹی کا مسئلہ ہو سکتا ہے۔