اقوام متحدہ کے تحقیق کاروں نے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور دیگر ممالک پر یمن میں جنگی جرائم کا الزام عائد کردیا۔
پیش کردہ ابتدائی رپورٹ میں انہوں نے موقف اختیار کیا کہ ’ان کے پاس متعدد ایسے شواہد موجود ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مذکورہ ممالک نے عالمی انسانی قوانین کی سنگین خلاف ورزی کی‘۔
اس حوالے سے رپورٹ میں کہا گیا کہ ’عالمی قوانین برائے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں بعض عمل ’جنگی جرائم‘ کے مترادف تھے جس میں قید، ریپ، تشدد اور سورش زدہ علاقوں میں بچوں کو بھرتی کرنا شامل ہے۔
تفتیش کاروں کو سربراہ کمال جینڈویبی نے ایک صحافی کو بتایا کہ ’صغہ راز پر مشتمل ایک فہرست اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کو پیش کی جائےگی‘۔
واضح رہے کہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے افسران کے مطابق گذشتہ 3 برس میں تقریباً 6 ہزار 660 شہری جاں بحق اور 10 ہزار 500 افراد زخمی ہوچکے ہیں۔
رپورٹ میں اتحادی فوجیوں کے حملے سے متعلق طریقہ کار بھی شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا۔
تفتیش کاروں نے بتایا کہ اتحادیوں نے جس جگہ کو نشانہ بنایا اس کے اطراف میں کوئی عسکری خطرہ بھی نہیں تھا۔
رپورٹ کا دائرہ کار ستمبر 2017 سے جون 2018 تک محدود ہے اور اس میں سلسلہ وار بچوں کی لاگت کا ذکر نہیں ملتا، جس کی وجہ سے عالمی دنیا میں سخت غم و غصے کا اظہار کیا تھا۔
سعودیہ کی قیادت میں اتحاد کے یمن تنازع میں شامل ہونے کے بعد فضائی حملوں میں اب تک تقریباً 10 ہزار افراد ہلاک ہوچکے ہیں، جسے اقوام متحدہ دنیا کا بدترین انسانی بحران قرار دے چکا ہے۔
رپورٹ کے مطابق ’اتحادیوں کے فضائی حملوں میں ہزاروں شہریوں نشانہ بنے جن کے اندارج ریکارڈ پہلے سے موجود تھا‘۔
اس ضمن میں تفتیش کاروں نے واضح کیا کہ بیشتر فضائی حملے رہائشی علاقوں، مارکیٹ، جنازہ گاہ، شادی کی تقریب، زیرحراست سینٹر، سولین کشتیوں اور طبی مراکز پر کیے گئے۔
حوثی باغیوں کی سعودی فوجی اتحاد سے 2015 سے جنگ جاری ہے، عرب اتحاد بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ یمنی حکومت کی بحالی کے لیے باغیوں پر حملے کر رہا ہے۔
واضح رہے کہ حوثی باغی یمن میں حکومت کے خلاف سرگرم عمل ہیں، دوسری جانب سعودی عرب اتحادی فورسز کے ساتھ مل کر یمنی صدر منصور ہادی کی مدد کر رہا ہے اور اس کی جانب سے اکثر وبیشتر حوثی باغیوں کو نشانہ بنایا جاتا رہتا ہے۔
عالمی سطح پر یمن کے صدر تسلیم کیے جانے والے منصور ہادی کی حامی ملیشیا اور فورسز نے عدن کو اپنا عارضی بیس بنایا ہوا ہے اور انہیں صنعا پر قابض حوثی باغیوں اور دیگر شدت پسند تنظیموں کی جانب سے مزاحمت کا سامنا ہے۔