کوئٹہ: اساتذہ تنظیموں کیجانب سے تعلیمی فورم کا انعقاد

321

حکومت نے تعلیم کو صرف اعلانات کی حد تک ترجیح دی ہے، مشترکہ مسائل کے حل کیلئے مشترکہ جدوجہد کی ضرورت ہے ۔ تعلیمی فورم میں مقررین کا اظہار خیال

(دی بلوچستان پوسٹ ویب ڈیسک)

سکول، کالج اور یونیورسٹی اساتذہ کی نمائندہ تنظیموں نے بلوچستان میں ٹیچنگ سٹاف کو درپیش مسائل پر شدید تشویش کااظہار کرتے ہوئے مشترکہ مسائل کے حل کے لئے مشترکہ جدوجہد کا فیصلہ کیا ہے اور واضح کیا ہے کہ بلوچستان میں تعلیمی شعبے کی ابتری اس وقت تک ختم نہیں ہوسکتی جب تک اساتذہ کو معاشرے میں ان کاجائز مقام نہیں دلایا جاتا،حکومت کی جانب سے وقتاً فوقتاً ہونے والے اعلانات خوش آئند ہیں مگر جب تک اساتذہ کی نمائندہ تنظیموں کی مدد سے دوٹوک عملی اقدامات نہیں اٹھائے جاتے صورتحال بہتر نہیں ہوسکتی، بلوچستان میں ٹیچنگ سٹاف کی انتہائی کمی، سکول سائیڈ میں 108 بچوں کو پڑھانے کے لئے صرف ایک استاد میسر ہے، 6 ہزار 6 سو سنگل ٹیچر سکول ہیں جہاں استاد کی بیماری، تبادلے یا ریٹائرمنٹ کی صورت میں سکول ہفتوں ہفتوں تک بند رہتا ہے، پروموشن، اپ گریڈیشن، ٹائم سکیل، پروفیشنل الاؤنس، حج کوئٹہ، بینووولنٹ فنڈ سمیت دیگر مطالبات پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے ۔

ان خیالات کااظہارکابلوچستان پروفیسرز اینڈ لیکچررز ایسوسی ایشن کے صدر پروفیسر آغا زاہد، اکیڈمک سٹاف ایسوسی ایشن کے صدر پروفیسر احمد شاہ، گورنمنٹ ٹیچرز ایسوسی ایشن کے صدر حاجی حبیب الرحمان مردانزئی، سینئر ایجوکیشنل سٹاف ایسوسی ایشن کے آرگنائزر محمد فیروز، نائب صدر محمد حنیف، یونس خان کاکڑ، پروفیسر نذیر لہڑی، نظام الدین کاکڑ، پروفیسر عین الدین کبزئی و دیگر نے گزشتہ روز بی پی ایل اے کے زیراہتمام منعقدہ تعلیمی فورم میں اظہار خیال کرتے ہوئے کیا ۔

مقررین نے کہا کہ اساتذہ کو اپنے شعبے کا وقار حاصل کرنے کے لئے بھرپور جدوجہد کی ضرورت ہے ،ہمارے محکمے کا ایک سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہمارے جو انتظامی سربراہان ہوتے ہیں ان کی تعلیمی شعبے کے لئے کوئی خدمات نہیں ہوتیں پہلے وہ لائیو سٹاک کا سیکرٹری ہوتا ہے وہاں سے زراعت میں آ تا ہے زراعت سے آکر تعلیم کا سیکرٹری بن جاتا ہے کبھی وہ لائیوسٹاک سے آتا ہے کبھی سی اینڈ ڈبلیو سے آتا ہے ۔بنیادی طو رپر وہ تعلیمی شعبے کا ماہر ہی نہیں محکمے کے اصل وارث اس کے ریگولر ملازمین ہیں مگر انہیں بری طرح سے نظر انداز کیا گیا ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے مقررین کا کہنا تھا کہ حکومت نے تعلیم کو صرف اعلانات کی حد تک ترجیح دی ہے ۔

سکول، کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر اساتذہ کے مسائل ایک جیسے ہیں، ٹیچنگ سٹاف کو مشترکہ مسائل کے حل کیلئے مشترکہ پلیٹ فارم پر آنا چاہئے اس حوالے سے بی پی ایل اے، جی ٹی اے، اے ایس اے اور سیسا کو اپنا فعال اورمتحرک کردار ادا کرنا چاہئے ۔

اس وقت بلوچستان میں محکمہ تعلیم سے وابستہ تمام سرکاری ملازمین بالخصوص ٹیچنگ سٹاف کو بہت زیادہ مسائل کا سامنا ہے ،تعلیمی اداروں کی حالت ناگفتہ بہ ہوچکی ہے ، سرد علاقوں کے تعلیمی اداروں میں گیس دستیاب نہیں اور گرم علاقوں کے ادارے بجلی جیسی بنیادی سہولت سے محروم ہیں۔

بلوچستان میں اساتذہ کی کمی کا اندازہ اسی سے لگایا جاسکتا ہے کہ صوبے میں 108 بچوں پر ایک استاد تعینات ہے۔ ہر ملازم کی تنخواہ سے بینو ولنٹ فنڈ کی مد میں کٹوتی کے باوجود ملازمین کو اس کا خاطرخواہ فائدہ نہیں پہنچ رہا، سیکرٹریٹ کے5 ہزار ملازمین کے لئے حج کوٹہ 50 جبکہ محکمہ تعلیم کے80 ہزار ملازمین کا حج کوٹہ صرف 22 رکھا گیا ہے۔
ڈاکٹرز کا پروفیشنل الاؤنس چالیس سے پچاس ہزار روپے ماہانہ ، فارماسسٹس کا سولہ ہزار، سکول ٹیچر کا صرف ایک ہزار اور لیکچررز و پروفیسرز پروفیشنل الاؤنس ہے ہی نہیں جو بہت بڑا المیہ ہے ۔

مقررین نے مشترکہ مسائل کے حل کے لئے مشترکہ پلیٹ فارم سے مشترکہ جدوجہد کا اعلان کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ بی پی ایل اے ، جی ٹی اے ، سیسا اور اے ایس اے کے مطالبات کی روشنی میں ٹیچنگ سٹاف کو درپیش مسائل کے حل کے لئے عملی اقدامات اٹھائے جائیں ۔