فسطائیت، پارلیمنٹ اور گرامچی کا موقف – برزکوہی

537

فسطائیت، پارلیمنٹ اور گرامچی کا موقف

برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ 

انتونیو گرامچی ویانا میں اپنے ساڑھے پانچ ماہ کے قیام کے دوران حتی الوسع اس کوشش میں رہے کہ وہ اطالوی بائیں بازو کے دھڑوں کو یکجا کرے، تاکہ فسطائیت کا مقابلہ کیا جاسکے۔ جس نے اٹلی کی سیاست پر تب پوری طرح اپنے پنجے گاڑے ہوئے تھا۔ فسطائیت کے سائے ہی میں 6 اپریل 1924 کو پارلیمانی انتخابات ہوئے، گرامچی ملک سے باہر ہوتے ہوئے بھی ایک حلقہ انتخاب سے انتخابات میں حصہ لے رہا تھا اور اپنے ہر دلعزیزی کی وجہ سے وہ پارلیمنٹ کا رکن منتخب ہوا۔ اس لیئے نہیں کہ وہ پارلیمنٹ میں آکر ذاتی مفاد نالی، روڈ ٹھیکے اور مراعات حاصل کرنا چاہتا تھا، بلکہ ملکی قانون کے تحت پارلیمنٹ کے رکن کو گرفتار نہیں کیا جاسکتا تھا۔ گرامچی اس تحفظ کو مدنظر رکھ کر اٹلی میں آنے اور فسطائیت کے خلاف میدان میں آکر مقابلہ کرنے کو مدنظر رکھتے ہوئے دوسال کی غیرحاضری کے بعد اٹلی پہنچا۔

گرامچی کی واپسی کے بعد جلد ہی پارلیمنٹ کے ایک رکن میتوئی کو پراسرار طریقے سے قتل کردیا گیا تھا، اس نے فسطائیت کے خلاف زبردست تقریر کی تھی اور یہ کہہ گیا تھا کہ “اب تم میرے جنازے پر جانے کی تیاری شروع کردو۔”

گو کہ فسطائی حکومت نے اس خبر کو ہر طرح سے روکنے کی کوشش کی لیکن گرامچی کے حوالے سے یہ خبر اس سرخی کے ساتھ شائع ہوگئی کہ “قاتلوں کی حکومت ختم کرو” سارے اٹلی میں غم غصے کی ایک لہر دوڑ گئی۔ پارلیمنٹ کا بائیکاٹ بھی کردیا، لیکن گرامچی کی اس تجویز کہ ملک گیر پیمانے پر سیاسی ہڑتال کی جائے کو خاص پذیرائی نہیں ملی۔ فسطائیوں نے پکڑدھکڑ شروع کردی، گرامچی کی نقل و حرکت بھی محدود ہوگئی، اس دوران چھپ چھپ کر اجلاس بلاتا اور زیادہ تر روپوش رہتا، اس دوران اس نے کیمونسٹ پارٹی کو کسی حد تک منظم بھی کرلیا تھا۔

اس وقت گرامچی نے کیمونسٹ پارٹی کی مرکزی کمیٹی کے سامنے ایک رپورٹ پیش کی، جس میں کہا گیا کہ فسطائیت کے تحت کوئی نمائندہ اسمبلی وجود نہیں رکھ سکتی، فسطائی حکومت ہر اسمبلی کو ایک مسلح کیمپ کی شکل دے دیتی ہے یا اسے رنڈی خانے کا ایسا بغلی کمرہ بنادیتی ہے جو سب سے بدمست کارکنوں کے لیئے مخصوص ہوتا ہے۔

جب خود گرامچی پارلیمنٹ میں افتتاحی تقریر کرنے کے لیے آیا تو یہ مسولینی اور گرامچی کے درمیان پہلا ٹکراو تھا، گو کہ وہ پہلے نہیں ملے تھے لیکن وہ ایک دوسرے کو اچھی طرح جانتے تھے، گرامچی نے حکومت کے خلاف سخت تنقید کی اور مسولینی کی پالیسیوں کو اچھی طرح رگیدا اس کی تقریر کے بعد پارلیمنٹ میں ایک ہنگامہ برپا ہوگیا، اس افتتاحی تقریر کے بعد حالات نے کروٹ لی اور وہ اس کی آخری تقریر بھی ثابت ہوئی۔

پھر اس کے بعد لولینا میں مسولینی پر قاتلانہ حملہ ہوا، جس سے رہی سہی آزادی بھی ختم ہوگئی، فسطائیت کے خلاف سب تنظیموں اور پارٹیوں پر پابندی لگا دی گئی اور جب گرامچی پارلیمنٹ کے اجلاس میں شرکت کے لیئے پہنچا، اسی رات اس کو گرفتا کرلیا گیا اور بیس سال کی سزا سنائی گئی۔

گرامچی کی مشہور و معروف اس قول کی طرف پہلے آکر پھر ہم اپنے اصل موضوع کی طرف قدم بڑھاتے ہیں، بقول گرامچی “صاحب دنیا میں انسان کبھی بھی درمیان میں یا غیرجانبدار نہیں ہوسکتا یا اس طرف یا اس طرف۔”

2018 کے پاکستان کی نام نہاد الیکشن کے نام پر پاکستانی خفیہ اداروں کی سلیکشن کے بابت پہلے واضح کروں کہ نہ بلوچستان کی صورتحال اور بنیادی تضاد اور مسئلہ اٹلی جیسا ہے اور نہ یہاں کوئی پارلیمانی نمائندہ گرامچی جیسا سوچ اور افکار کا مالک ہے۔ یہاں مسئلہ اور صورتحال مختلف ہے۔ بلوچ قوم پاکستان یا بلوچستان کی نظام کی تبدیلی نہیں بلکہ بلوچ قوم اپنی ریاست بلوچستان کی قومی آزادی اور پاکستانی قبضے سے چھٹکارے کے لیئے برسرپیکار ہیں۔

اسی تناظر میں تجزیہ کیا جائے تو 2013 میں بلوچستان میں پاکستان کی نام نہاد الیکشن اور نام نہاد قوم پرست پارٹی اور پاکستان ریاست کی تخلیق کردہ بی ٹیم نیشنل پارٹی ڈاکٹر مالک اینڈ کمپنی کے ساتھ مقتدرہ قوتوں کا ایک باقاعدہ ڈیل ہوگیا، بے شک آپ لوگوں کو جتوا کر کٹھ پتلی حکومت بلوچستان کو بطور مراعات اور انعام لوگوں کے حوالہ کردینگے لیکن بنیادی شرط یہ ہے کہ آپ بلوچ قومی آزادی کی تحریک کو ختم کرنے لیئے پاکستانی فوج کے ساتھ عملاً شانہ بشانہ ہوجاؤ ڈاکٹر مالک اینڈ کمپنی مقتدرہ قوتوں کے ہاں میں ہاں ملاکر ایپکس کمیٹی کے فیصلوں پر عمل درآمد کرتی رہی۔ پاکستانی فوج کے ساتھ پانچ سال تک بلوچوں پر فوجی آپریشن، بے گناہ بلوچ مرد و خواتین اور معصوم بچوں کی گرفتاری اور لاپتہ کرنے کے ساتھ مسخ شدہ لاشوں کے سلسلہ سیاسی کارکنوں طالب علموں ڈاکٹروں وکلاء ہر مکتبہ فکر بلوچوں کی قتل عام اور نسل کشی میں نیشنل پارٹی برائے راست ملوث رہا۔ خاص طور پر بلوچ سرمچاروں کی سرنڈر ڈرامہ سیریز میں نیشنل پارٹی کا نمایاں کردار بھی رہا اور نیشنل پارٹی کے مرکزی اور علاقائی عہدیدراور کارکن باقاعدہ طور پر پورے بلوچستان میں پاکستانی فوج کے لیئے مخبری کا کام کرتے ہوئے، پنجابی کی نمک حلالی میں پیش پیش تھے اور ریاستی پروپگنڈوں کو تقویت دینے اور پھیلانے میں نیشنل پارٹی شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار ثابت ہوا۔

لیکن اس کے باوجود پانچ سال کے دوران پاکستانی فوج اور اس کے ساتھ ساتھ نیشنل پارٹی کی بلوچ دشمن پالیسیاں اور بلوچ قومی تحریک کے خلاف جبر و تشدد ڈرامہ، پروپگنڈہ اور سازشیں حالیہ نام نہاد الیکشن کے دوران پورے بلوچستان، خاص کر مکران میں ناکام اور قومی آزادی کے موقف اور فکر کی تائید ثابت ہوگی۔ یہ واضح اور ٹھوس دلیل یہ ثابت کرتا ہے کہ نیشنل پارٹی کی بلوچ دشمن جرائم اور نسل کشی کے پیش نظر بلوچ سماج میں نیشنل پارٹی مکمل بدنام قومی مجرم اور قومی گناہ گار ثابت ہوتا ہے۔

میں نے 25 جولائی سے قبل بھی اپنے ایک آرٹیکل میں ذکر کیا تھا کہ نیشنل پارٹی غلیظ و گندہ اور نا قابل استعمال ٹشو پیپر ثابت ہوچکا ہے، مقتدرہ قوتوں کی نظر میں تو حالیہ الیکشن میں اس بات پر مہر ثبت ہوئی۔ اور نیشنل پارٹی کو بطور غلیظ ٹشو پیپر پاکستانی ریاست نے کوڑے دان میں پھینک دیا۔

بی این پی مینگل، سردار اخترجان مینگل اس دوران نیشنل پارٹی، شفیق مینگل اور ڈیتھ اسکواڈوں کی بلوچ قومی گناہوں اور جرائم خاص کر بلوچستان میں فوجی آپریشن، بلوچوں کی گرفتاری، مسخ شدہ لاشوں کا سہارا لیکر خوب ان کو اچھالا، نیشنل پارٹی کو پاکستان ریاست سے زیادہ دشمن پیش کرکے اپنے آپ کو بلوچ قوم اور بلوچستان کا خیر خواہ ثابت کیا، اختر جان کی اس کار خیر میں ریاست کا بھی آشیرباد ضرور بلاواسطہ یا بالواسطہ شامل تھا۔

بہرحال آخر کار خوف، بربریت، دھونس، دھمکی، مقتدرہ قوتوں کی ہاتھوں بیلٹ ٹھپہ اور بولٹ کے ساتھ کسی نا کسی حد تک ظلم و تشدد اور جبر کے خلاف پاکستانی ریاست نیشنل پارٹی شفیق اور ڈیتھ اسکواڈ کی نفرت اور غصہ کی انتہاء میں بلوچ قوم اخترمینگل کو اندھوں میں کانا راجہ کے مصداق سمجھ کر بھروسہ کر رہی ہے اور مقتدرہ قوتیں بھی اپنے چھتری کے سائے تلے اخترمینگل کو لے رہے ہیں، تاکہ بلوچوں کی آٹے میں نمک برابر ہمدردی اور خیرخواہی کے موقع کو غنمیت سمجھ کر اختر مینگل کو ایک دفعہ قومی تحریک کے خلاف استعمال کیا جائے۔

اب سردار اختر مینگل اینڈ کمپنی کے اوپر یہ بات منحصر ہے کہ وہ نیشنل پارٹی، شفیق مینگل، سرفراز، چنگیز اور دیگر کی عبرت ناک حالت کو دیکھ کر عبرت حاصل کرینگے یا انہی کی نقش قدم پر چلینگے۔ اخترمینگل کے پاس اب دو راستے ہیں، درمیان والا راستہ نہیں ہے، اس پار یا اس پار۔

صوبائی حکومت کو اخترمینگل کو پیش کرنے کے لیے واحد شرط یہ ہوگی کہ مالک بنو، ثناء زہری بنو، سرفراز بنو یا پھر ہٹ جاؤ لیکن اخترمینگل اینڈ کمپنی اس وقت تک اپنے سابقہ فارمولے کہ سانپ بھی مرے لاٹھی بھی نا ٹوٹے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں، لیکن آگے مزید یہ پرانا فارمولا کارگر ثابت نہیں ہوگا۔

کیونکہ بلوچ قومی تحریک کی مجموعی تجزیہ سے یہ ثابت کرتا ہے کہ قومی جنگ آگے بھی مزید شدت کے ساتھ جاری و ساری ہوگا، مشرف دور اقتدار پیپلز پارٹی دور اقتدار سے زیادہ بلوچ قومی تحریک اور بلوچ قوم کے خلاف مالک اینڈ کمپنی کے دور میں بلوچ نسل کشی، جبر تشدد اور سازشیں ہوئے، ان کو مدنظر رکھ کر تحریک پھر بھی اپنے منزل کی جانب رواں دواں ہے۔

اگر آنے والے ریاستی پالیسیوں اور حکمت عملیوں کو قومی تحریک صحیح معنوں میں سمجھ کر، اپنی پالیسیاں اور حکمت عملیاں مرتب کریگی، تو تحریک مزید قوت اور شدت کے ساتھ رواں دواں ہوگا، اب یہ بات بلوچ قیادت اور جہدکاروں پر منحصر ہے وہ کس طرح اور کیسے منصوبہ بندی اور لائئحہ عمل ترتیب دینگے، کیونکہ آنے والے امتحان اور چیلنجز مزید پیچیدہ اور سخت ترین ہونگے۔