اصلاحی تنقید – خاکہ: حکمت عملی اور لیڈرشپ کا فقدان – امُل بلوچ

555

اصلاحی تنقید

خاکہ: حکمت عملی اور لیڈرشپ کا فقدان

تحریر: امُل بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

تعمیری تنقید یا تنقید برائے اصلاح کسی بھی کامیابی کےلیئے ضروری ہے، جن سے کافی تبدیلیاں اور بہتری لائی جا سکتی ہے۔ میری تنقید بلوچ تحریک کی حکمت عملی اور قیادت کے فقدان پر ہے۔

اگر تاریخ دہرائی جائے، تو آج تک وہ تحریک کامیاب نظر آتے ہیں، جہنوں نے اپنی قیادت اورحکمت عملی کو مظبوط بنایا ہے، چونکہ حکمت عملی قیادت سے ہی جنم لیتی ہے اور جب قیادت ہی کمزور ہو تو حکمت عملی بنتی ہی نہیں۔

آج بلوچستان میں بلوچوں پر جو ظلم و ستم ڈھایا جارہا ہے، اس کو شاید دنیا میں کہیں اور کوئی نظیر نہیں ملتی۔ بلوچستان کے حالات دیکھ کریہ واضح ہوتی ہے کہ یقیناً دنیا کے کسی حصے میں کسی بھی قوم کے ساتھ وہ ظلم و تشدد نہیں ہورہا ہے، جو بلوچ قوم جھیل رہی ہے۔ مگر افسوس کے انسانی حقوق کے علمبرداروں کے کان میں جوں تک نہیں رینگ رہی۔ عالمی ادارے یا میڈیا تو دور جب پاکستان کے ہی دوسرےصوبوں کے لوگ بلوچ کش فسادات یا تشدد سے لاعلم ہیں۔ حتیٰ کہ بلوچستان میں ہی بسنے والے بلوچ جو اس ظلم و جبر کو سہنے کے باوجود بھی کسی حد تک حقائق سے لاعلم ہیں۔ بجائے اس ظلم اورتشدد کے خلاف آواز بلند کرتے، وہ بلوچ تحریک کو ہی اسکا قصوروار ٹہراتے ہیں، جو اپنی جانیں اس ظلم کے خلاف قربان کر رہے ہیں۔

لوگوں کے دل میں فکر کے بجائے، دشمن کے لیئے ہمدردی کیوں؟ لوگ حقائق سے نا واقف کیوں؟ پہلے فکر نہیں خوف ہی سہی اب دنوں کیوں نہ رہے؟ کیا اس کا جواب ہماری کمزور قیادت اور حکمت عملی کا فقدان ہے؟

میں سوچتا ہوں شاید ہاں، کیونکہ جن قوموں کی حکمت عملی میں بنیادی جز ذہن سازی، سرپدی ، تیاری، ڈپلومیسی ، اعتمادو اعتبار، علم و فکر اور شعور و آگاہی ہے، تو وہ قومیں اپنے منزل تک جا پہنچیں ہیں۔ اگر ہم فکر و سرپدی پہ زور دیتے، تو شاید آج ہم یہ رونا نہ روتے اور شاید آج ہم بلوچستان کے لوگوں کو اپنے ساتھ یکمشت پاتے۔ اور علم و سرپدی ہی کی مدد سے ہم دنیا میں خود ایک ایسا نام بناتے کہ ہمیں ان ناپاک میڈیا کا رونا نہ روتے۔

میری تحقیق کے مطابق کچھ سال پہلے بلوچستان کے 60 فیصد لوگ بلوچ تحریک کے ہمدرد تھے اور ان کے دل میں ایک فکر پائی جاتی تھی اور دوسرے لوگوں میں ایک خوف پائی جاتی تھی کہ اگرہم دشمن کا ساتھ دیں، تو نہ صرف ہمارے ساتھ برا ہوگا بلکہ ہم غدار کہلاینگے۔ مگر بجائے اسکے کہ یہ فکر ایک سمندر کی شکل اختیار کرتی ، اب موجودہ وقت میں نہ ہونے کےبرابر کیوں ہے؟ اب تو ایسا لگ رہا ہے کہ لوگ70 فیصد بلوچ تحریک کے خلاف اور دشمن کے ہمدرد بنے دکھتےہیں۔

اسکو مزید سمجھنے کے لئے 2013 کی الیکشن کا مثال لے کہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس وقت یہ شاید صرف خوف ہی نہیں تھی، جو لوگ گھروں سے الیکشن کے لئے نہیں نکلے، بلکہ وہ کسی حد تک شعور و فکر تھی۔ اور اب 2018 کی الیکشن کی گرما گرمی سے یہ اندازہ ہوا کہ وقت بدل چکا ہے۔

مندرجہ بالا سوالوں کا جواب صرف ایک ہی ہے کہ ہماری کمزور قیادت نے ذہن سازی، علم و فکر کے لیئے کوئی حکمت عملی نہیں بنائی اور اس کے ساتھ ساتھ تمام تر دروازے بند کیئے گئے، جن سے سرپدی و فکری عمل حاصل ہوتی تھی۔

کیسے؟ اس کی واضح مثال بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن سے ملتی ہے، جب تک بی ایس او بطور ایک اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن سر گرم عمل تھی، تو اس وقت تک لاتعداد فکری وشعوری ذہن پائے جاتے تھے۔ لوگوں کی ذہن سازی کافی تیزی سے کی جارہی تھی۔ مگر کاش کہ بی ایس او کو ایک ڈپلومیٹک اور غیرجانبدار آرگنائزیشن کی صورت میں سرگرم عمل رکھا جاتا، تو شاید آج فکر کا ایک سونامی پایا جاتا، مگر اس کےسامنے لفظ آزاد لگا کہ سارے فکری اور ذہن سازی کرنے کے دروازے بند ہوئے۔

اب ایک اور سوال کہ موجودہ دور میں ایسی کیا حکمت عملی بنائی گئی ہے کہ کیسے لوگوں کی ذہن سازی کی جائے؟ شاید اب بھی کچھ فکری لوگ پائے جائیں، تو انہیں اپنی طرف کیسے لایا جائے؟ یا جو لوگ کام کرنا چاہتے ہیں، تو انہیں کیسے مواقع فراہم کی جائے؟ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اس تحریک میں کیسے شامل کی جائے؟ تو یہ تمام تر تبدیلیاں ایک لیڈر ہی لاسکتا ہےاور بلوچستان میں رہ کر یہ چیزیں ممکن نہیں، یہ وہ لیڈرز کر سکتے ہیں، جو بیرون ملک ہماری قیادت کررہے ہیں، کیوںکہ ان کو وہاں کوئی خوف نہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا وہ وہاں رہ کر بینالاقوامی سطح پر آواز بلند کرنے کے ساتھ ساتھ فکری حوالے سے بھی کام کر سکتے ہیں؟

اگر ان کی طرف رخ کی جائے، تو لیڈرشپ کا فقدان ہی ملے گا اور صرف مایوسی ہی ملے گی۔ بجائے وہ وہاں بسنے والے اپنے ہی لوگوں کو اپنی طرف کھینچتے اور ان سے کام لیں، ان کو کنوینس کریں، ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھاتے جبکہ وہ اپنی ہی لوگوں سے بھاگتے، چھپتے ، نظر انداز کرتے ہیں اور اگر اپنے لوگوں کو اپنی طرف لاتے تو شاید ایک ایسی کنیکشن بنتی کہ فکری حوالے سے کام ہوتا۔

آخر میں یہ ضرور کہنا چاہتا ہوں کہ میں نے بلوچستان میں ایسے بہت سے ہونہار، قابل اور فکری سنگت دیکھے ہیں، جن میں بلوچ قوم کے لئے کام کرنے کی جزبہ و جنون کی حد تک لگن ہے، مگر انہیں کام کرنے کے لیئے کوئی پلیٹ فارم نہیں ملتی ہے۔ اگر کچھ دوستوں نے خود سے کچھ کرنے کی کوشش کی ہے، تو بے بنیاد بغیر تحقیقی الزامات نے بھی کافی فکری دوستوں کا دل توڑا ہے۔ بیرون ملک رہنے والے دوستوں سے یہی سنا ہے کہ کافی عرصہ رہنے کہ باوجود انہیں نظر انداز کرکے مایوس کیا گیاہے، تو یہ اس سے ہی اخذ کی جاتی ہے کہ لیڈرشپ کا فقدان ہے اور بہتری کی کوئی جہد نہیں کی جارہی ہے۔ تو اس لیڈرشپ اور حکمت عملی کے فقدان کو کیسے ختم کی جائے؟ جواب ملنے کے بعد اپنے اگلے تحریر میں ان کے حل کا تجویز بھی دینا چاہونگا کہ اب ان حالات میں بھی کیسے زہن سازی کی جا سکتی ہے۔