جبری طور پر لاپتہ کراچی یونیورسٹی کا طالبعلم صغیر بلوچ بازیاب
دی بلوچستان پوسٹ ویب ڈیسک کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق کراچی سے جبری طور پر لاپتہ کیئے جانے والا بلوچ طالبعلم صغیر بلوچ بازیاب ہوکر اپنے گھر پہنچ گیا.
واضح رہے صغیر بلوچ کو جامعہ کراچی سے 20 نومبر 2017 کو شام پانچ سے چھ بجے کے بیچ سادہ کپڑوں میں ملبوس خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے اس وقت اغوا کیا تھا، جب وہ یونیورسٹی کے کینٹین میں موجود تھے۔ صغیراحمد جامعہ کراچی میں پولیٹیکل سائنس کے طالبعلم تھے- ان کا تعلق بلوچستان کے ضلع آواران کے علاقے تیرتیج سے ہے۔
جبکہ بلوچستان میں آئے روز اس طرح کی ماورائے عدالت گرفتاریوں اور لاپتہ کیئے جانے کے خلاف لواحقین بھی سراپا احتجاج ہیں، جن میں اکثریت خواتین کی ہے، جو اپنے عزیزوں کی بازیابی کے لیئے روایات کی پرواہ کیئے بغیر پریس کلبوں اور سڑکوں پر سراپا احتجاج رہتی ہیں۔
اسی احتجاج میں ایک آواز صغیر بلوچ کی بہن حمیدہ بلوچ کی بھی شامل رہی، جو گذشتہ کئی ماہ سے اپنے بھائی کے اغواء ہونے کے خلاف سراپا احتجاج رہی۔ حمیدہ احتجاج کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر بھی اپنے بھائی کے بازیابی کےلیئے کمپین چلاتی رہی۔
حمیدہ بلوچ نے اپنے ایک سابقہ ویڈیو پیغام میں کہا تھا کہ ”بھائی کی جبری گمشدگی کے بعد ہمارے گھر والے شدید پریشانیوں میں مبتلا ہیں اور اندر سے ٹوٹ چکے ہیں کیونکہ صغیر کے رہائی کے لیئے وہ کچھ نہیں کر پارہے۔ مجھے گمان بھی نہیں تھا کہ کراچی میں میرے بھائی کو اغوا کیا جائے گا، کیونکہ وہ کسی بھی غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث نہیں تھا۔”
بلوچ ہیومن رائٹس آرگنائزیشن نے اپنے جاری کردہ بیان میں کراچی یونیورسٹی سے خفیہ اداروں کے ہاتھوں اغواہ ہونے والے طالب علم صغیر احمد ولد غلام قادر کے جبری گمشدگی کی شدید الفاظ میں مذمت کی تھی نوجوان طالب علم کی فوری بازیابی کا مطالبہ کیاتھا۔
گزشتہ سال لاپتہ افراد کی بازیابی کمیٹی اور ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی جانب سے صغیر احمد اور دیگر تمام لاپتہ افراد کیلئے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے نائب صدر اسد اقبال بٹ کی سربرائی میں کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس بھی کیا گیاتھا.
پریس کانفرنس میں حکومت سے تمام لاپتہ افراد کو بازیاب کرنے کی اپیل کی گئی تھی اور مطالبہ کیا کہ اگر لاپتہ افراد میں سے کسی نے کوئی جرم کیا ہے تو ملک میں عدالتیں موجود ہیں ان کو عدالتوں میں پیش کیا جائے۔