رویہ کیا ہے؟ – برزکوہی

1957

رویہ کیا ہے؟

برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ 

درست و خراب، منفی و مثبت، انقلابی و رد انقلابی، سیاسی و غیر سیاسی، قابل برداشت و ناقابل برداشت رویے کیا ہیں؟ آخرکار خود رویہ کیا ہوتا ہے؟ کیسے تشکیل و نمو پاتا ہے؟ کب تشکیل پاتا ہے؟ کہاں سے تشکیل پاتا اور کہاں و کیسے تبدیل ہوسکتا ہے؟ کوئی جانتا ہے، کسی کو پتہ ہے یا نہیں یا پھر ہم بحثیت بلوچ، دوسرے بہت سے عوامل اور اصطلاحات کی طرح اس بنیادی وصفِ انسانی کے بارے میں بھی نابلد و بیگانہ اور عقل سے پیدل ہوکر بس صرف سنی سنائی باتوں اور رٹے و سرقے بازی کی حد تک دن رات ہر چیز اور ہر اصطلاح کی معنی اور مفہوم کو نہ سمجھتے ہوئے، بار بار اور صبح و شام، محض دہراتے رہتے ہیں، لیکن یہ سوچنے و سمجھنے کی سعی نہیں کرتے ہیں کہ ایک محاورے کے مصداق بلی کے پیچھے بھاگنے کے بجائے پہلے اپنے کان کو ہاتھ لگا کر دیکھتے نہیں کہ کان موجود ہے یا نہیں۔ اسی لیئے گاڑی تو ہم سب چلا رہے ہیں، لیکن ایک پاوں ایکسیلیٹر و دوسرا بریک پر رکھا ہوا ہے، لہٰذا زور تو بہت لگ رہا ہے لیکن آگے نہیں بڑھ رہے ہیں۔

زوایہ نظر و طرز نگاہ paradigm یونائی زبان کا لفظ ہے۔ بقول اسٹیفن آرکو اے بنیادی طور paradigm ایک سائنسی اصطلاح تھی، لیکن آجکل یہ ایک ماڈل نظریہ اداراک، مفروضے یا سوچنے کے انداز اور معنوں میں لیا جاتا ہے۔ عام طور پر اس کے معنی ہیں، زندگی کو دیکھنے کا انداز، محض آنکھوں سے دیکھنا نہیں بلکہ سمجھنا اور تشریح کرنے کے معنوں میں۔

سائنس و فلسفہ اور اسٹیفن بغیر تردید کے اس بات پر زور دیتے ہیں کہ انسانی رویوں کی تشکیل و تعمیر اور ترتیب دراصل انسان کے زاویہ نظر اور طرز نظر میں ہمیشہ کارفرما ہوتا ہے، یعنی خود رویوں کا کچھ الگ تشخص نہیں ہے، انسانی رویے باقاعدہ طور پر انسانی نقطہ نظر اور زوایہ نظر کے ساتھ جڑے ہیں۔ جب تک انسانی نقطہ نظر اور ذوایہ نظر صحیح اور مثبت نہیں ہوگا، اس وقت تک انسانی رویوں کا مثبت و صحیح ہونا مشکل نہیں بلکہ نا ممکن ہوگا۔ اس حوالے سے اسٹیفن آرکوے ایک خوبصورت دلیل اور مثال پیش کرتا ہے کہ “فرض کیجیے آپ کو اندرون شکاگو کسی خاص مقام پر پہنچنا ہے، اس مقام پر پہنچنے کیلئے شہر کی گلیوں کا نقشہ بہت معاون ہوسکتا ہے لیکن فرض کریں کہ آپ کے ہاتھ میں غلط نقشہ آگیا ہے اور چھپائی کی غلطی سے جس نقشے پر شکاگو لکھا گیا ہے وہ دراصل ڈیٹرایٹ کا نقشہ ہے، کیا آپ اپنی مایوسی کا اندازہ کرسکتے ہیں جو آپ کو اپنی منزل پر نہ پہنچنے سے ہوگی؟”

وہ مزید کہتا ہے کہ “ہوسکتا ہے کہ آپ اپنے رویے کو مثبت اور صحیح سوچ کے ذریعے بہتر بنانے کی آخری حد تک کوشش کریں لیکن اس کے باوجود آپ اپنی منزل پر نہ پہنچ پائیں لیکن شاید آپ اس کی زیادہ پرواہ بھی نہیں کریں گے، آپ کا سوچنے کا انداز اس قدر مثبت ہوگا کہ آپ جہاں بھی ہوں گے خوش ہوں گے۔ لیکن حقیقتاً آپ کھوئے ہوئے تو رہیں گے، بنیادی مسئلے کا آپ کے رویئے یا سوچنے کے انداز سے کوئی تعلق نہیں، اس کا تعلق تو غلط نقشے سے ہے۔”

کم سے کم میں ذاتی حوالے سے اس نقطہ نظر پرمتفق اور قائم ہوں کہ پوری قوم اور بلوچ سماج اسوقت پاکستان کے زیرتسلط غلامانہ سماج میں بری طرح مفقود ہے، یہاں سب کی حثیت و اہمیت غلام سے زیادہ اور کچھ نہیں ہے اور غلام قوم کی دنیا اور تاریخ میں کوئی حثیت، وقار اور اہمیت نہیں ہوتا۔ سوائے اس غلامی کے خلاف اور آزادی کے حصول کیلئے لڑی جانے والی جنگ کے۔

یہاں بلوچ قوم اور بلوچ سماج میں مڈل کلاس، اپر کلاس، لوئر کلاس کی علمی و تاریخی بنیادوں پر تشریح و تعریف اور علمی پیمانے سے اگر دیکھا، سمجھا اور غور کیا جائے تو سنی سنائی باتوں اور رٹےبازی سے ہٹ کر بہتر انداز میں تجزیہ کریں اور علمی تعریف کی بنیاد پر غلامانہ سماج اور غلامی کی بدترین زنجیروں میں جکڑئے ہوئے بلوچ قوم میں طبقات کا وجود باقی نہیں رہتا۔ سب کے سب اس وقت پاکستان کے نام پر پنجابیوں اور چوہدریوں کے پیروں، تھپڑوں، گھونسوں، لاتوں اور شکنجوں تلے پِس رہے ہیں۔اغیار کے پیر تلے ہونے کے بعد پھر کون اعلیٰ و کون ادنیٰ ہوگا؟ علم اور تاریخ تو سب کو صرف اور صرف غلام قوم سے ہی یاد کریگا اور پہچانے گا، باقی ہم اگر دل کو بہلانے کی خاطر اپنے آپ کو دوسروں کو، جس بھی طبقے، مقام، حثیت یاد کریں یا بلائیں تو کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔ فرعون بھی خود کو خدا کہتے ہوئے نہیں تھکتا تھا، لیکن خدا نہیں بنا۔

ان طبقات مثلاً اپر کلاس، مڈل کلاس اور لوئر کلاس جن کا عملاً ہمارے سماج میں وجود نا ہو لیکن انکی محض علمی تعریف کے بنیاد پر بلوچ قوم اور بلوچ جہدکاروں کی ذہنی و فکری تربیت کرنا اور وقتی سوچ اور ماحول بناکر بلوچ زہنوں پر اثر انداذ ہونا خود مستقبل میں تحریک کیلے باعث نقصان ہوگا۔

البتہ اس نقطہ نظر اور زاویہ نظر سے وہ رویے نمو پا چکے ہیں اور پارہے ہیں، جو آزادی اور انقلابی جہد کے سامنے رکاوٹ ہیں۔ ان کی مکمل حوصلہ شکنی اور بیخ کنی کرنا ہوگا، وہ ذہنیت خدا کرے اپر کلاس میں یا مڈل کلاس اور لوئر کلاس میں ہو شعور و علم اور سیاسی و ذہنی تربیت سے اس ذہنیت اور ان رویوں کا قلع قمع کرنا ہوگا۔ کیونکہ رویوں کی تشکیل، اگر نقطہ نظر اور زوایہ نظر سے تشکیل پاتا ہے، تو اسی طرح خود نقطہ نظر کی تشکیل سماج، ماحول اور ذہنی تربیت سے جنم لیتا ہے۔

اب بحثیت بلوچ قوم ہمارا نقطہ نظر اور زاویہ نظر کی تشکیل و ترتیب بلوچ قبائلی و نیم قبائلی سماج، روایتی طرز سیاست، وراثت، پاکستانی نصاب تعلیم، بیوروکریٹک نظام سے پایا چکا ہے۔ تمام چیزوں کے بارے میں وہاں سے ہمارے ہاتھوں میں ایک نقشہ دیا گیا ہے، وہ نقشہ صحیح ہے یا غلط؟

نقشوں کو صحیح سمجھنے، یعنی نقطہ نظر اور زاویہ نظر کو صحیح کرنے کیلئے صحیح علم اور صحیح شعور ضرورت ہوتی ہے، جو ذہنی تربیت پر منحصر ہے۔ پھر نقطہ نظر اور زاویہ نظر تبدیل ہوکر صحیح اور مثبت ہوگا، جب نقطہ نظر صحیح اور مثبت ہوگا تو رویے خود بخود صحیح اور مثبت ہونگے۔

صحیح و غلط، مثبت و منفی، انقلابی و ردِ انقلابی رویے کیا ہیں؟ ان کا ادراک، انہیں جاننے، سمجھنے اور سیکھنے کا پیمانہ اور علم و شعور ہر ایک کے پاس کیا ہے؟ میں کیسے اور کس ترازو سے انصاف کرکے برملا یہ کہتا ہوں کہ میرا رویہ مثبت، صحیح یا انقلابی ہے اور دوسروں کا رویہ ردِ انقلابی، منفی اور غلط ہے، کیسے اور کس طرح؟ کبھی کسی نے یہ سوچا ہے، یا بس پھر ہر کوئی اسی طرح اپنی جگہ پر ایسا ہی سوچتا ہے اور ایسا ہی کہتا ہے؟ پھر کون صحیح اور کون غلط ہے، یہ فیصلہ کون کریگا؟ کس کے پاس یہ اختیار و علم ہے؟ کس کو فیصلہ کرنے کا حق حاصل ہے؟ کیا اگر میں کسی کی ذاتی خواہشات، توقعات، مزاج، طبیعت، فرمانبرادری اور جی حضوری یعنی من وعن اس کے ڈگر پر نہیں چلوں گا، تو اس کا مطلب میرا رویہ منفی غلط اور غیر انقلابی ہوگا؟ من وعن قبول کرکے چلتا ہوں، تو پھر رویہ مثبت صحیح اور انقلابی ہوگا؟ پھر ایک انسان کیسے اور کس طرح تمام انسانوں کی تمام خواہشات اور توقعات کے مطابق چلے؟ سب کو خوش رکھے یہ کیسا ممکن ہوگا، خاص کر آزادی کی تحاریک میں اگر ممکن نہیں ہے، تو پھر اس ناممکن صورتحال کو کیسے اور کس طرح منفی رویے، غلط رویے اور ردِانقلابی رویوں کا نام دیا جاتا ہے؟

اس بات سے کوئی ذی شعور انکار نہیں کرسکتا کہ بلوچ قومی تحریک میں اوپر سے نیچے اور نییچے سے لیکر اوپر کی سطح تک غیر انقلابی اور منفی رویے وجود رکھتے ہیں یعنی چیزوں کو دیکھنے کا غلط نقطہ نظر اور غلط نقشہ وجود رکھتا ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ تحریک میں جب کسی کے ذاتی خواہشات، مقاصد، غرض و توقعات پورا نہ ہوں، تو وہ بھی کہے کہ انقلابی رویے نہیں ہیں۔ کوئی تحریک کی پرکھٹن ماحول اور سخت حالات سے گھبرا کر بزدلی اور خوف ذدگی سے بول پڑے کے تحریک میں انقلابی رویے نہیں ہیں یا تحریک سے راہ فراریت اختیار کرنے کی خاطر بھی وہ اس امر کو بطور حیلہ استعمال کرے۔ کچھ تو دشمن کا ہم پیالہ بن کر کہتے ہیں کہ تحریک میں انقلابی رویے نہیں۔

اسکی وجہ یہ ہے کہ آجکل بلوچ قومی تحریک میں غیر انقلابی اور منفی رویوں کی موجودگی یا غیر موجودگی عام رویے حتیٰ کہ انقلابی و غیر انقلابی، مثبت و منفی، تنظیمی و غیر تنظیمی، تحریکی اور غیر تحریکی رویوں کی بازگشت انتہاء تک پہنچ چکا ہے۔ ان متذکرہ رویوں کے فرق کو نہ سمجھتے ہوئے بھی بس رویے کو سب سے آسان جواز و بہانہ بناکر تحریک کو ہدفِ تنقید بنایا جاتا ہے۔

کیا آج تک کسی نے یہ سوچنے اور یہ حقیقت جاننے کی کوشش کی ہے، درحقیقت تنظیمی و تحریکی اور انقلابی رویے عام انسانی مزاج و رویوں، طبیعت اور سوچ سے بہت مختلف ہوتے ہیں؟ دوسری طرف کیا کوئی عام انسانی مزاج اور رویوں کو تحریکی، تنظیمی اور اصولی رویوں کا نام دیکر انقلابی قرار دے سکتا ہے؟ یہ مشکل نہیں بلکہ امرِ نا ممکن ہے۔

اگر کوئی بھی تحریک عام انسانی رویوں ہر ایک جہدکار کی عام طبیعت، مزاج اور رویوں کے مطابق چلنا شروع کردے، پھر ایک تو چل نہیں سکتا، اگر چل بھی پڑے تو پھر یہ ممکنات میں شامل نہیں کہ وہ تحریک کامیابی سے ہمکنار ہو۔ تحریک کبھی ایک فرد کے ذاتی مزاج اور ذاتی رویے کے مطابق اسی طرح نہیں چل سکتے بلکہ تحریک کے اپنے طے شدہ اور مستند اصول یا رویے اور مزاج بلکل واضح ہیں۔ سب سے پہلے ان کو صحیح سمجھنے، وہ بھی علمی بنیاد اور حقائق پر سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد یہ طے کرنا اور فیصلہ کرنا کہ میں خود غیر انقلابی و غیر تنظیمی، غیر تحریکی اور منفی رویوں کا شکار تو نہیں ہوں؟ صرف رٹے باذی اور چرچا کرنے سے چند لوگ چند وقت تک بے وقوف بن سکتے ہیں، مگر تاریخ اور پوری قوم بے وقوف نہیں بن سکتا۔

یہ ایک حقیقت ہے اور آخری حد تک تقاضہ اور ضرورت بھی ہے کہ بلوچ قومی تحریک آزادی کو اگر منزل مقصود تک پہنچانا ہے اور وہ بھی ایک عوامی تحریک کی موثر ترین شکل میں، تو بلوچ قیادت اور ہر بلوچ جہدکار کو اپنے نقطہ نظر اور زاویہ نظر کو ایک عام بلوچ کت نقطہ نظر سے بلکل مختلف کرنا ہوگا۔ وگرنہ جنگ بھی ہوگی، سیاست بھی ہوگا، ادارے بھی ہونگے اور تنظیم بھی ہونگے، لیکن ایک منظم مضبوط اور رول ماڈل تحریک اور ابھرتے ہوئے قومی لیڈر کاخواب خدانخواستہ صرف خواب ہی رہیگا جو کبھی شرمندہ تعبیر نا ہوپائے گا۔

سب سے پہلے ایک بھر پھر ذکر کرتا ہوں، رویے اور انقلابی و ردانقلابی رویوں کے فرق کو صحیح معنوں میں جان کر تبدیل کرنا ہوگا، یہ اس وقت مکمن ہوگا، جب پہلے ہم اپنے نقطہ نظر کو تبدیل کرلیں، جب تک نقطہ نظر تبدیل نہیں ہوگا، اس وقت تک رویوں کی تبدیلی نا ممکن رہیگی۔

اسٹیفن اس حوالے سے کہتا ہے کہ “آپ کی جانفشانی تب رنگ لائے گی، جب پہلے آپ کے ہاتھ میں شکاگو کا اصل نقشہ ہو، پھر راستہ تلاش کرنے میں مشکلات کے دوران آپ کا مثبت رویہ آپ کا مددگار ہوسکتا ہے لیکن پہلے اور سب سے اہم بات تو نقشے کا ٹھیک ہونا ہے۔”

اب واضح ہوتا جارہا ہے کہ ہمارا ذوایہ نظر ہی ہماری رائے اور رویے کے پیچھے کارفرما ہوتا ہے، یعنی زاویہ نظر کی تبدیلی paradigm shift کی اصطلاح تھامس کوہن نے اپنی اہم کتاب “سائنسی انقلاب کا ڈھانچہ” میں متعارف کروائی کوہن نے یہ دکھایا کہ کس طرح سائنس کے میدان میں بھی نئی دریافت، پرانی، روایتی سوچ اور زاویہ نگاہ کی تبدیلی پر منحصر ہوتی ہے۔

اسی طرح بقول تھوریو برائی کے “پتوں کو ہزار مرتبہ کاٹنے سے بہتر ہے کہ اس کی جڑ پر ایک بھر پور وار کیا جائے، ہم اپنی زندگی میں بڑے درجے کی بہتری صرف ایسی صورت میں لاسکتے ہیں، جب ہم رویوں کی کاٹ چھانٹ کرنا بند کردیں اور اپنے زاویہ نظر کی جڑ پر کام شروع کریں، جس سے ہمارے تمام رجحان اور رویے پھوٹتے ہیں۔”

بہت دور جانے کی ضرورت نہیں انگریز سامراج کی بلوچستان آمد اور نت نئے شکل میں بلوچ قوم کو تقسیم در تقسیم کرنے کی لانگ ٹرم پالیسی کے تحت بلوچ کو بلوچ قوم کی قبائلی نظام کو اپنے مفادات اور مقاصد کی خاطر ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت جس ہنرمندانہ طریقے سے تقسیم کیا گیا، اس سے آج تک انگریز کے ایجنٹ، کالے انگریز پنجابی بھی مستفید ہورہے ہیں۔ اسی طرح پنجابی بھی ڈاکٹر حئی اور ڈاکٹر مالک اینڈ کمپنی کی شکل میں سرداروں کی ملی بھگت اور رضامندی کے ساتھ جس طرح پنچابی کی ایماء پر سردار اور اینٹی سردار کے نام پر بلوچوں کو اپنے ذاتی مفاد حاصل کرنے کی خاطر جس طرح تقسیم در تقسیم کرنے کا مرتکب ہوئے اور بلوچوں میں جس طرح کاسوچ اور ذہنیت کو جنم دیا، وہ آج تک موجود ہے۔ جس کا نقصان براہِ راست بلوچ قوم اور قومی تحریک کو اور فائدہ پنجابی دشمن کو ہورہا ہے۔

ڈاکٹر مالک مڈل کلاس کے نام پر بلوچ قوم کو تقسیم اور اس کا استحصال کررہا ہے، باقی سردار و نواب اپرکلاس میر معتبری اعلیٰ نسل شاہی، خاندان کے نام پر بلوچ قوم کو تقسیم اور اس کا استحصال کررہے ہیں۔ دونوں کا مقصد بلوچ قوم کو تقسیم در تقسیم کرنے اور ذاتی مفاد حاصل کرنا ہے اور اس کے منفی اثرات آج سے نہیں شروع سے بلوچ قوم پر پڑرہے ہیں اور بلوچ قوم کی ذہنی تربیت و تشکیل اسی تناظر میں ہوتا جارہا ہے اور بلوچ قومی تحریک کی نشونماء اور رودوم اسی زیر اثر سماج سے ہوتا آرہا ہے، پھر قومی تحریک سے وابستہ جہدکاروں کی نقطہ نظر کی تشکیل، ایسے سماج سے ہو تو پھر رویے کیسے اور کس طرح کے ہوں گے؟ تحریکی، روایتی، انقلابی، سیاسی یا قبائلی؟

فلسفیانہ نقطہ نظر سے اس حقیقت میں کوئی دورائے نہیں کہ بلوچ تحریک سے وابستہ جہدکار نقطہ نظر اور زاویہ نظر اگر بلوچ سماج سے پاکر رویوں کی تشکیل کرتے ہیں، تو وہ ہرگز انقلابی اور تحریکی نہیں ہوتے ہیں۔ جب رویے انقلابی اور خالص تحریکی نہیں ہوتے ہیں تو پھر تحریک میں تقسیم در تقسیم اور مسائل کا پیدا ہونا فطری عمل ہوگا۔ سب سے پہلے نقطہ نظر اور ذوایہ نظر کو تبدیل کرنا ہوگا، تب جاکر رویے تبدیل ہونگے، جب رویے تبدیل ہونگے، تب مسائل حل ہوتے ہیں، لیکن ان کا حل بھی تحریکی نقطہ نظر اور زوایہ نظر سے بروقت ہو سکتا ہے، پھر تحریک کبھی بھی مسائل در مسائل اور انتشار در انتشار کا شکار نہیں ہوگا۔

سب سے پہلے نقطہ نظر اور ذوایہ نظر کو تبدیل کرنا ہوگا، مہشور و معروف سائنسدان البرٹ آئن سٹائن کا مشاہدہ ہے کہ ہم درپیش اہم مسائل کا حل سوچ کی اسی سطح پر رہ کر نہیں کرسکتے، جس پر ہم اس وقت تھے جب ہم نے اپنے مسائل کو پیدا کیا تھا۔

آئن سٹائن کے اس مشاہدے سے مکمل اتفاق کرتے ہوئے میں کہتا ہوں، جس سوچ یا نقطہ نظر کے بدولت، جو بھی معمولی اور غیر معمولی تحریکی مسائل جنم لے چکے ہیں یا آج ہم ان کے شکار ہیں، موجودہ نقطہ نظر سے ان کا حل ایک تو ناممکن ہے، دوسرا وہ حل ہونے کے بجائے مزید بڑھتے جائینگے۔ حل کرنے میں خدا کرے جتنا خلوص نیک نیتی ایمانداری قربانی اور محنت کیوں شامل نہ ہو۔ کیونکہ جب غلط نقشہ ہاتھ میں ہوگا، پھر آپ جتنا بھی مشکل اور محنت و نیک نیتی کے ساتھ سفر کریں منزل تک پہنچنا نا ممکن ہوگا۔

آج بلوچ قیادت سے لیکر ہر جہدکار کو بلوچ تحریک، تحریکی مسائل، ذمینی حقائق، معروضی و موضوعی حالات، دشمن اور خاص کر بلوچ قوم اور بلوچ سماج کی موجودہ حالت و کیفیت، تمام تر صورتحال کو روایتی، فرسودہ زوایہ نظر اور نقطہ نظر سے ہٹ کر سائنسی اور فلسفیانہ نقطہ نظر اور زوایہ نظر سے دیکھنا اور سمجھنا ہوگا۔ پھر ہمارے رویے بھی نئے شکل میں تشکیل پاکر تحریکی اور انقلابی رویے ثابت ہونگے۔

اگر ہم حقیقی اور عملاً تبدیلی کا خواہاں نہیں، تو پھر اسرار زہری بھی اپنے نام کے آگے بلوچ لکھتا ہے لیکن عملاً وہ کیا ہے؟ پھر ہم دعویٰ جتنا بھی کریں، ظاہر جو بھی کریں اور کرتے رہیں، جب تک تبدیلی عملاً نہیں ہوگا، اس وقت تک انقلابی رویوں کا جنم ممکن نہیں۔ صرف آزادی کی فکر اور تحریک سے وابستگی کو کوئی مکمل انقلابی تو نہیں کہہ سکتا ہے۔

کہنے کا مطلب، کچھ نہ کچھ ایسے نقطہ نظر اور زاویہ نظر ہمارے بیچ ضرور وجود رکھتے ہیں، جو ہمارے رویوں کی تشکیل کرتے ہیں، جو کسی بھی سردار، نواب، میر و معتبر، ٹکری میں ہوں یا لیڈر، کمانڈر، کارکن، لکھاری، شاعرو ادیب، صحافی یا کسی کامریڈ میں ہوں، جس میں بھی ہو وہ ہرگز بلوچ قوم، بلوچ قومی تحریک کیلئے فائدہ مند نہیں، بلکہ ناسور ہیں۔ ایسے نقطہ نظر اور ذہنیتوں کی ہمیشہ اور ہر جگہ بھرپور انداذ میں بیخ کنی اور حوصلہ شکنی کرنا چاہیئے۔ ایک تو ایسے ذہنیت اور نقطہ نظروں سے بلوچ تحریک کبھی بھی کسی بھی صورت میں کامیاب نہیں ہوگا، اگر کامیاب ہو بھی جائے، تو ایسے ذہنیت کے شکار بلوچستان اور بلوچوں کیلئے پاکستان سے زیادہ خطرناک ہونگے، پھر ماڈل ریاست کا تصور، صرف تصور رہیگا۔ جس طرح ایسے ذہنیت کی موجودگی میں ریڈیکل تنظیم کا تصور صرف تصور ہی ہوگا۔

میرا ذاتی مشاہدہ ہے، کبھی کبھبار ایک واقعہ ایک ہی حالت پورے انسان کے سوفیصد مستقل طور پر رویہ تبدیل کرسکتا ہےبشرطیکہ وہ اصل حقیقت اور حقائق کو سمجھ کر اپنا نقطہ نظر تبدیل کرے۔ جس طرح اسٹیفن آر کوے کے مشہور و معروف نیویارک سفر کا اہم واقعہ سمجھنے والوں کیلئے، سمجھ جانے کیلئے کافی ہے۔ اس واقعے کے پڑھنے سے میں بذات خود بہت کچھ سیکھا۔

واقعہ کچھ یوں ہے بقول اسٹیفن “اتوار کی ایک صبح نیویارک میں میں زیر زمین ٹرین پر سفر کررہاتھا، لوگ خاموشی سے بیٹھے تھے کچھ اخبار کا مطالعہ کررہے تھے اور کچھ سوچوں میں گم تھے اور کچھ آنکھیں موندے آرام کررہے تھے، ایک بہت خاموش اور پرسکون ماحول تھا۔

پھر اچانک ایک آدمی اپنے بچوں کے ساتھ ٹرین میں داخل ہوا، بچے اس قدر شور اور ہنگامہ خیز تھے کہ اک دم ٹرین کا ماحول بلکل ہی بدل گیا، وہ آدمی آکر میرے ساتھ والی نشست پر بیٹھ گیا۔ اس نے اپنی انکھیں بند کرلیں۔ یوں کہ گویا اس ماحول سے اس کا کوئی تعلق نہ ہو، بچے اونچے آواز میں چیخ وچلا رہے تھے، ایک دوسرے پر چیزیں پھینک رہے تھے، حتیٰ کہ لوگوں کے چیزوں و سامان سے چھیڑ چھاڑ کررہے تھے۔ یہ سب بہت تکلیف دہ تھا لیکن اس کے باوجود وہ شخص میرے ساتھ آرام سے آنکھیں موندے اسی طرح بیٹھا رہا۔ یہ ناممکن تھا کوئی انسان اس صورتحال سے غصے میں نہ آئے، بلآخر میرا صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور میں نے اس شخص کی طرف مڑکر کہا، سرآپ کے بچے لوگوں کو بہت پریشان کررہے ہیں، میرا خیال ہے کہ آپ کو انہیں کنٹرول کرنا چاہیئے، اس شخص نے یوں آنکھیں کھولیں، جیسے ایک عرصے کے بعد ہوش میں آیا ہو، وہ آہستگی سے بولا جناب آپ ٹھیک فرما رہے ہیں، میرا خیال ہے اس سلسلے میں مجھے کچھ کرنا چاہیئے، دراصل جناب ہم ابھی ہسپتال سے آرہے ہیں، جہاں ان کی ماں تقریبا ایک گھنٹہ پہلے فوت ہو گئی ہے، مجھے بلکل کچھ سمجھ نہیں آرہا ہے اور میرا خیال ہے کہ انھیں بھی پتا نہیں لگ رہا ہے کہ اس صورتحال اور پریشانی سے کیسے نمٹیں۔”

بقول اسٹیفین کہ “کیا آپ تصور کرسکتے ہیں، اس وقت میری کیا کیفیت ہوگی؟ میرا زوایہ نظر یکسر تبدیل ہوگیا، اچانک چیزوں کو بلکل مختلف طریقے سے دیکھنے لگا۔ مختلف طریقے سے محسوس کرنے لگا، میرا موقف بلکل مختلف ہوگیا اور میرا رویہ بدل گیا، میرا دل اس شخص کے غم سےبھرگیا، میں ہمدردی اور غمگساری کے جذبات سے بھیگ گیا۔ تمھاری بیوی تھوڑی دیر پہلے فوت ہوگئی ہے؟ مجھے بہت دکھ ہوا مجھے اس کے بارے میں مزید بتاو میں تمھارے لیے کیا کرسکتا ہوں ہر چیز اور میرا رویہ بلکل تبدیل ہوکر رہ گیا۔

اسٹیفن کے رویے کی تبدیلی کی بنیادی وجہ نقطہ نظر کی تبدیلی سے ہوا اور نقطہ نظر کی تبدیلی کی بنیادی وجہ احساسات اور محسوسات سے ہوا یعنی احساسات اور محسوسات ان کے ذہن پر اثر انداذ ہوئے، اس کی ذہنی تربیت ہوئی اور ایک ذہنیت بن گیا اور احساسات اور محسوسات اس وقت ذہن پر اثر انداز ہونگے، جب آپ کسی بھی حقیقت سے واقف ہونگے۔ صحیح نقشہ آپ کے ہاتھ میں ہوگا۔ آج اگر ہم تمام تحریکی مسائل، ذمینی حقائق اور دنیا کے بدلتے ہوئےحالات، اپنی حالت بلوچ قوم کی حالت، تحریک کی پوزیشن اور دشمن سے اگر اچھی طرح واقف ہوں اور ان کے بارے میں ہمارے ہاتھ میں صحیح نقشہ ہو اور ہم اپنے کاز مقصد اور فکر کے ساتھ سو فیصد مخلص اور ایماندار ہوں تو تمام چیزوں پر ہمارا زوایہ نظر اور نقطہ نظر اک دم تبدیل ہوگا۔

جب نقطہ نظر تبدیل ہوگا، تو رویے خود بخود تبدیل ہونگے، تحریکی تقاضات کی عین مطابق ہونگے، بنیادی شرط نقشے کو صحیح سمجھنا، سمجھنے کیلئے جاننا اور ادراک رکھنا اور جاننے اور ادراک کیلئے علم و شعور اور تحقیق پھر علم پر مکمل عمل ضروری ہوتا ہے۔ تبدیلی سب سے پہلے اپنے سے اپنے اندر سے بعد میں باہر سے شروع ہوتا ہے۔ پہلے باہر سے ہرگز نہیں ہوتا ہے، باہر سے توقع کرنا بے معنی و وقت کی ضیاع ہے۔

جیسا کہ میریلن فرگوسن نے کہا “کوئی شخص بھی کسی کو تبدیل ہونے پر مجبور نہیں کرسکتا، ہم سب کے اندر تبدیلی کا ایک دروازہ ہوتا ہے، جسے صرف اندر کی جانب کھولا جاسکتا ہے، ہم دلیل اور جذباتی فیصلے سے کبھی کسی اور کا دروازہ نہیں کھول سکتے ہیں۔”